24 اپریل ، 2020
کراچی: ماہرینِ امراض پیٹ اور جگر کا کہنا ہے کہ روزہ رکھنا نہ صرف نظام انہضام کے لیے انتہائی مفید ہے بلکہ روزہ رکھنے سے انسان میں قوت مدافعت بڑھتی ہے جوکہ اسے متعدی امراض بشمول کورونا وائرس سے لڑنے میں مدد دے سکتی ہے۔
ان خیالات کا اظہار پاک جی آئی اینڈ لیور ڈیز سوسائٹی (پی جی ایل ڈی ایس) کے زیر اہتمام جمعہ کو آن لائن سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
آن لائن سیمینار سے ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے رجسٹرار اور معروف فزیشن پروفیسر امان اللہ عباسی، لیاقت نیشنل اسپتال کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر لبنیٰ کمانی، معروف ماہر امراض پیٹ و جگر اور پی جی ایل ڈی ایس کے سرپرست اعلی ڈاکٹر شاہد احمد، سوسائٹی کے صدر ڈاکٹرسجاد جمیل، جناح اسپتال کراچی کی ڈاکٹر نازش بٹ اور ڈاکٹر حفیظ اللہ شیخ نے بھی خطاب کیا۔
ڈاؤ یونیورسٹی کے رجسٹرار پروفیسر امان اللہ عباسی کا کہنا تھا کہ رمضان مسلمانوں کے لیے انتہائی رحمت کا باعث ہے کیونکہ اس کے ذریعے اللہ تعالی انسانی جسم کے نظام انہضام کی مرمت فرماتا ہے، روزہ رکھنے سے انسانی جسم کی قوت مدافعت بڑھتی ہے جو کورونا وائرس اور اِس سے ہونے والی انفیکشن سمیت دیگر بیماریوں سے لڑنے میں مدد دیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ روزے سے انسانی دماغی صلاحیت بہتر ہوتی ہے جب کہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ روزے رکھنے سے جسم میں مختلف بیماریوں کے وائرس کی تعداد کم ہوتی ہے جس کے نتیجے میں بیماریوں پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ روزے دار جو کسی بھی قسم کی ادویات استعمال کر رہے ہیںپہلے اپنے ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کریں اور اپنی ادویات باقاعدگی سے استعمال کریں تاکہ انہیں رمضان میں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
ایک سوال کے جواب میں پروفیسر امان اللہ عباسی کا کہنا تھا کہ یہ خیال غلط ہے کہ روزے داروں کو قبض ہو جاتا ہے کیوں کہ روزے کی حالت میں انسان کا نظام انہضام بہتر طریقے سے کام کر رہا ہوتا ہے لیکن لوگوں کو چاہیے کہ وہ پھلوں، سبزیوں، دالوں، دہی اور پانی کا استعمال زیادہ کریں جب کہ تلی ہوئی اور غیر صحت بخش غذاؤں سے پرہیز کریں۔
لیاقت نیشنل اسپتال سے وابستہ ماہر امراض پیٹ وجگر پروفیسر ڈاکٹر لبنیٰ کمانی کا کہنا تھا کہ جگر کے امراض میں مبتلا ایسے مریض جن کی بیماری ابتدائی نوعیت کی ہے وہ اپنے ڈاکٹر کے مشورے سے روزہ رکھ سکتے ہیں لیکن ایسے مریض جن کو ان کے ڈاکٹروں نے پیشاب آور ادویات تجویز کر رکھی ہیں اور جن کو پیٹ میں پانی بھرجانے، غنودگی جیسے مسائل کا سامنا ہے، انہیں روزہ رکھنے سے گریز کرنا چاہیے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ کہ رمضان کے روزے موٹاپے پر قابو پانے میں انتہائی مددگار ثابت ہوسکتے ہیں اور اس وقت دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک میں "انٹر میٹینٹ فاسٹنگ" یا سولہ گھنٹے تک بغیر کھائے پیے رہنے کے عمل کے ذریعے موٹاپے پر قابو پانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
پی جی ایل ڈی ایس کے سرپرست اعلی اور دارالصحت اسپتال کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر شاہد احمد نے صحت بخش غذا کے استعمال پر زور دیتے ہوئے کہا کہ رمضان میں ہونے والے پیٹ کے تمام امراض کی وجہ غیر صحت بخش غذاؤں کا استعمال اور حد سے زیادہ کھانا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ رمضان کے روزوں کو چند لوگ بھوک اور پیاس برداشت کرنے کے مہینے کے بجائے زیادہ سے زیادہ کھانے کا مہینہ سمجھ بیٹھتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ مختلف امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ڈاکٹر شاہد احمد کا کہنا تھا کہ لوگوں کو چاہیے کہ وہ سادہ اور صحت بخش غذا کھائیں، تلی ہوئی اشیاء سے پرہیز کریں اور دودھ دہی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ پانی پیئیں تاکہ وہ عبادات اور روزوں کا صحیح لطف اٹھا سکیں۔
پی ڈی جی ایل ڈی ایس کے صدر اور لیاقت نیشنل اسپتال کے کنسلٹنٹ ڈاکٹر سجاد جمیل نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کورونا وائرس سے متاثرہ ایسے مریض جن کو کسی قسم کی علامات ظاہر نہ ہوئی ہوں یا معمولی علامات ہو وہ روزہ رکھ سکتے ہیں لیکن ایسے مریض جن کی بیماری درمیان یا شدید نوعیت کی ہو گھروں کے بجائے اسپتال میں داخل ہونا چاہیے تاکہ ان کا باقاعدگی سے علاج ہو سکے۔
آن لائن سیمینار کی ماڈریٹر اور جناح اسپتال کی کنسلٹنٹ ڈاکٹر نازش بھٹ کا کہنا تھا کہ کچھ لوگوں کو سحر اور افطار میں چائے اور کافی پینے کی عادت ہوتی ہے جس کے نتیجے میں روزے کے دوران ان کو بار بار پیشاب آتا ہے اور ان کا جسم پانی کی کمی کا شکار ہو سکتا ہے۔
انہوں نے اس موقع پر لوگوں کو مشورہ دیا کہ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے گھر پر رہیں، احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور سادہ غذا کھا کر رمضان کے مہینے میں اپنے جسم کو صحت مند رکھنے کی کوشش کریں۔
لیاقت نیشنل اسپتال سے وابستہ ڈاکٹر حفیظ اللہ شیخ کا کہنا تھا کہ سحر اور افطار میں لوگ جلدی جلدی زیادہ سے زیادہ کھانا چاہتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ پیٹ کے امراض کا شکار ہو جاتے ہیں انہوں نے مشورہ دیا کہ ایسے مریضوں کو آہستہ آہستہ کھانا چاہیے اور اپنے ڈاکٹروں کی ہدایات پر عمل کرنا چاہیے۔