شوگر کے مریضوں میں کورونا انفیکشن اور بلیک فنگس کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، ماہرین

 
فوٹو: فائل

ذیابیطس کے مریضوں میں کورونا وائرس سمیت بلیک فنگس اور دیگر خطرناک انفیکشنز لگنےکا خطرہ عام لوگوں سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے جس کی بنیادی وجہ ذیابطیس کے مریضوں میں قوت مدافعت کا کم ہونا ہے۔

پاکستان میں ذیابطیس کے ایسے مریض جنہیں اپنی بیماری کے متعلق آگاہی نہیں ان کی تعداد ایک کروڑ سے زائد ہے اور ایسے مریضوں کو چونکہ شوگر کنٹرول کرنے کی ضرورت کا احساس نہیں ہوتا اس لیے وہ بہت آسانی سے متعدی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔

آغا خان یونیورسٹی کے ماہر متعدی امراض ڈاکٹر فیصل محمود کے مطابق شوگر کے مریضوں کی قوت مدافعت صحت مند لوگوں کے مقابلے میں کافی کم ہوتی ہے جس کے نتیجے میں انہیں مختلف اقسام کے وائرل، بیکٹیریل اور فنگل انفیکشن لگنےکے نہ صرف امکانات زیادہ ہوتے ہیں بلکہ ایسے مریضوں میں ان بیماریوں سے شدید بیمار ہونے کے چانسز بھی دوسرے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس سے متاثرہ شوگر کے مریضوں میں بیماری کی شدت دیگر لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے جس کے سبب اموات کی شرح خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے جب کہ ایسے مریضوں میں خطرناک بلیک فنگس کے انفیکشن کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے کیونکہ ان کو دوران علاج دیے جانے والے اسٹرائیڈز ان مریضوں کی قوت مدافعت کو مزید کم کر دیتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ شوگر کے مریضوں کے پیروں میں درد محسوس کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں ان کے پیروں میں زخم ہو جاتے ہیں جن میں بعد میں انفیکشن ہو جاتے ہیں اور اکثر لوگوں کی انگلیاں اور ٹانگیں کاٹنی پڑجاتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ذیابطیس کے مریضوں کو اپنی شوگر مقررہ حد میں رکھنی چاہیے جب کہ وہ لوگ جنہیں اپنی بیماری کے متعلق آگاہی نہیں انہیں چاہیےکہ وہ اپنے سالانہ معائنے کے دوران اپنی شوگر ضرور چیک کرائیں۔

ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز سے وابستہ ماہر امراض ذیابیطس پروفیسر اختر علی بلوچ کا کہنا تھا کہ ذیابیطس کے مریض مختلف پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں جس کی بنیادی وجہ ان مریضوں میں قوت مدافعت کا کم ہو جانا ہے،۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ذیابیطس کے مریضوں میں میں کورونا انفیکشن کے بعد بعد بیماری کی شدت عام لوگوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن زیابیطس کے ایسے مریض جن کی شوگر مقررہ حدود میں رہتی ہے انہیں شدید بیماری کے امکانات کم ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر اختر علی بلوچ جو کہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ڈائبیٹیز اینڈوکرائنولوجی کے ڈائریکٹر ہیں کے مطابق پاکستان میں تقریبا 50 فیصد یا ایک کروڑ سے زیادہ افراد کو یہ علم ہی نہیں کہ وہ شوگر کے مرض میں مبتلا ہیں جب کہ پاکستان میں تقریبا دو کروڑ سے زیادہ افراد پری ڈائبیٹک ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ انھیں جلد یا بدیر ذیابیطس کی بیماری لاحق ہونے والی ہے۔

انہوں نے کہا ایسے تمام لوگ جن کے خاندان میں کوئی نہ کوئی شخص ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہے یا جن کی عمر 40 سال سے زائد ہے اور ان کی کمر کا سائز 36 انچ سے زیادہ ہے انہیں اپنی شوگر ضرور چیک کروانی چاہیے۔

معروف معالج اور عہد میڈیکل سینٹر کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر بابر سعید خان کا کہنا تھا کہ پاکستان اینڈوکرائین سوسائٹی کے تعاون سے انہوں نے "ڈسکورنگ ڈائیبیٹیز" نامی منصوبہ شروع کیا ہے، جس کے تحت ایسے لوگ جو کہ ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہو سکتے ہیں یا اس مرض میں مبتلا ہیں لیکن انہیں اپنی بیماری کے متعلق علم نہیں وہ ایک ہیلپ لائن پر کال کر کے مفت مدد حاصل کر سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے لوگ جن کے خاندان میں کوئی نہ کوئی شخص ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہے، جن کی عمر 40 سال سے زائد ہے اور وہ موٹاپے کا شکار ہیں انہیں چاہیے کہ وہ 0800-66766 پر مفت کال کریں اور اپنی صحت کے متعلق مشورہ رہنمائی اور مفت اسکریننگ کی سہولیات سے فائدہ اٹھائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈسکورنگ ڈائبیٹیز کے منصوبے کے تحت زیابیطس کے خطرے سے دوچار مریضوں کا نہ صرف مفت چیک اپ کروایا جاتا ہے بلکہ علاج کے حوالے سے مفید معلومات اور آگاہی بھی فراہم کی جاتی ہے۔

ڈاکٹر بابر سعید خان کا کہنا تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اس منصوبے کی سرپرستی کریں اور ان کے منصوبے کی معاونت کریں کیونکہ پاکستان میں ذیابیطس کا مرض ناقابل تلافی نقصانات کا سبب بن رہا ہے۔

مزید خبریں :