پاکستان
Time 15 اکتوبر ، 2021

عمران خان کی قبل اَز انتخابات حکمتِ عملی

چاہے وزیراعظم مانیں یا نہ مانیں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا عنصر پارٹی کو نقصان پہنچا رہا ہے— فائل فوٹو
چاہے وزیراعظم مانیں یا نہ مانیں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا عنصر پارٹی کو نقصان پہنچا رہا ہے— فائل فوٹو

وہ لوگ جو وزیراعظم عمران خان کو ان کے کرکٹ کھیلنے کے زمانے سے جانتے ہیں، اس بات سے واقف ہیں، انہوں نے اکثر سلیکٹرز کی منتخب کردہ ٹیم کو نظرانداز کیا اور اپنے چنے گئے کھلاڑیوں کو ترجیح دی۔

ان کا ہمیشہ یہ مؤقف رہا کہ بحیثیت کپتان فتح اور شکست کے وہ تنہا ذمہ دار ہیں۔

انہوں نے 1996ء میں سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔ یہی اُصول انہوں نے سیاست میں بھی لاگو کرنے کی کوشش کی لیکن بعد میں انہیں یہ مشورہ دیا گیا کہ سیاست کرکٹ نہیں، یہ موقع سے فائدہ اُٹھانے کا کھیل ہے۔

اس وقت ان کی حکومت کو سب سے بڑا چیلنج کا سامنا ہے ان کے آئندہ منصوبوں کا تعلق آئندہ عام انتخابات اور انہیں جیتنے کی حکمت عملی سے متعلق ہے۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران حکومتی اقدامات کا تعلق اصلاحات سے زیادہ آئندہ انتخابات جیتنے سے متعلق ہے۔ جس کے نتیجے میں انہیں سخت صورتحال اور چیلنجوں کا سامنا ہے۔

پارٹی اس حوالے سے منقسم ہے۔ حکومت سپریم کورٹ کی ہدایت پر آئندہ مارچ تک بلدیاتی انتخابات کرانے کی پابند ہے۔ اندرون پارٹی کچھ کی رائے میں پنجاب کے اندر سخت چیلنج درپیش ہوگا۔ جہاں حربے آزمائے جانے کے باوجود مسلم لیگ (ن) میں دراڑیں نہیں ڈالی جا سکیں۔

چاہے وزیراعظم مانیں یا نہ مانیں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا عنصر پارٹی کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا خطرہ مول لینا بڑا مشکل مرحلہ ہوگا۔

عمران خان کے ایک قریبی معاون کا کہنا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا بہترین وقت سال 2019ء تھا۔ اب بڑی تاخیر ہو چکی۔ چاہے الیکٹرونک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کا معاملہ ہو یا سمندر پار پاکستانیوں کے حق رائے دہی، الیکشن کمیشن سے محاذ آرائی، مردم شماری کا انعقاد ہو یا نیب آرڈیننس کا تعلق ہو، یہ تمام بظاہر انتخابی حکمت عملی سے متعلق نظر آتا ہے۔

آئندہ عام انتخابات 2021ء میں ہوں گے۔ عمران خان تین وجوہ سے قبل از وقت انتخابات کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ایک تو مہنگائی نے ان کی حکومت کو غیرمقبول کر دیا۔ دُوسرے بڑے پیمانے پر اصلاحات کا وعدہ پورا نہیں ہوا اور تیسرے احتسابی محاذ پر حکومت کی ناکامی ہے۔ تاہم سول ملٹری تعلقات سے نمٹنے پر حکومت کو کریڈٹ دیا جا سکتا ہے۔ 

لہٰذا توقع کی جا سکتی ہے کہ تقرری اور تبادلوں کے معاملے میں ہوش مندی سے کام لیا جائے گا۔ اس میں اہم ترین معاملہ آئی ایس آئی کے نئے ڈائریکٹر جنرل کا تقرر ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے آئی ایس آئی سربراہ کی حیثیت سے اپنی دو سالہ میعاد مکمل کرلی۔ آرمی چیف چاہتے تھے کہ ان کا تبادلہ کور کمانڈر کی حیثیت سے کر دیا جائے۔

نئی تقرریوں اور تبادلے کے حوالے سے آئی ایس پی آر کا جو پریس ریلیز جاری ہوا، اس میں لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو کور کمانڈر پشاور اور کور کمانڈر سندھ لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کو آئی ایس آئی کا سربراہ دکھایا گیا ہے۔

اگر پریس ریلیز کا اجراء کسی غلط فہمی کا نتیجہ رہا تو یہ بڑی بھاری غلط فہمی تھی۔ لیکن مسئلہ کو جلد حل کرنے کے بجائے وزیراعظم ہاؤس نے ہفتہ بھر کی تاخیر کر دی۔ جس سے سوشل میڈیا پر قیاس آرائیوں نے جنم لیا۔ 12 اکتوبر کو حکومت نے آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز سے کھل کر اختلاف کیا۔

یہ تجزیہ روزنامہ جنگ میں 15 اکتوبر کو شائع ہوا۔

مزید خبریں :