بحران در بحران، کیسے چلے گا پاکستان؟

سوچنے کی بات ہے کہ بحران در بحران پیدا ہو رہے ہیں، آخر پاکستان کو کون بچائے اور چلائے گا؟ نومبر میں نئے آرمی چیف کی قبل از وقت تقرری اور تبدیلی کے حوالے سے گزشتہ کالم میں میری تجویز کو تائید مل رہی ہے اور صدر مملکت عارف علوی نے کہا ہے کہ اس تجویز پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

سنجیدہ حلقوں کو موجودہ معاشی و سیاسی بحران فوری طور پر ٹالنے اور ہر طرف بڑھکتی آگ ٹھنڈا کرنے کیلئے اس سے ذرا آگے بھی سوچنا چاہئے کہ آرمی چیف کا عہدہ ہمیشہ سے طاقت کامنبع سمجھا جاتا رہا ہے۔ ہر آنے جانے والی حکومت اس عہدے سے ہی طاقت حاصل کرتی یا کمزور ہوتی ہے اور بات حکومتیں گرانے، بنانے تک جا پہنچتی ہے جبکہ اس تقرری کا کلی اختیار آئینی طور پر وزیراعظم پاکستان کے پاس ہے۔ وہ اس عہدے پر بطورچیف ایگزیکٹو ، پاک فوج کے سینئر ترین جنرل کا تقرر بلا تردد کرسکتے ہیں۔ 

یہ اخلاقی و روایتی تقاضا ہے کہ اگر وزیراعظم چاہیں تو اس تقرری سے قبل آرمی چیف سے مشاورت کریں یا نہ کریں؟ روایت یہی رہی ہے کہ وزارتِ دفاع کے ذریعے ریٹائر ہونے سے قبل آرمی چیف سے تین سینئر ترین جرنیلوں کے نام مانگے جاتے ہیں اور حتمی رائے بھی آرمی چیف کی ہی قبول کی جاتی ہے لیکن جب کبھی یہ مرحلہ آیا تو انجام اختلاف ہی ہوا۔

 مستقبل میں کسی بھی بڑے آئینی بحران سے بچنے کی خاطر یہ معاملہ بھی اتفاق رائے سے حل کیا جاسکتا ہے کہ آئندہ آرمی چیف کے طاقت ور ترین عہدے پر تقرری اور ریٹائرمنٹ اعلیٰ عدلیہ میں سنیارٹی لسٹ کی بنیاد پر ہو تو توقع رکھی جاسکتی ہے کہ پاکستان کے تقریباً80فی صد بحران حل ہو جائیں اور جو سیاست دان ہر بار اپنی کوتاہیوں، نالائقیوں کا ملبہ عسکری قیادت پر ڈال دیتے ہیں اور پھر اس بیانیے کی بنیاد پر عوام میں پاکستان کا قومی وقار برباد کرتے ہیں کہ انہیں کسی دباؤ کے تحت کام کرنے نہیں دیا گیا ، یہ بیانیہ ہمیشہ کے لئے دفن ہو جائے گا کہ نیوٹرل جانور ہوتا ہے، مجھے کیوں نکالا؟ اگر مجھے نکالا تو میں ” خطر ناک“ ہو جاؤں گا۔

گلی محلے میں جو غداری کے سرٹیفکیٹ، جعلی موبائل سموں کی طرح بانٹے جاتے ہیں پھر کچھ عرصے بعد ان سموں سے رِنگ ٹون کی بجائے یہ آواز آتی ہے کہ ”آپ کو یہ مطلوبہ سہولت میسر نہیں رہی“ اور کہیں کہیں یہ سننے کو ملتا ہے کہ ”سوری رانگ نمبر“ اب تو بات اس سے بھی آگے بڑھ چکی ہے کہ ایک دوسرے سے اختلاف کی بنیاد پر موبائل فون نمبر تک بلاک کر دینے کے دعوے کئے جاتے ہیں حالانکہ سیاست دانوں میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ ایسا کرسکیں کیونکہ رابطے تو ضروری ہوتے ہیں لیکن جھوٹے بیانیے کے شوق میں انہیں ایسا کہنا پڑتا ہے اور پھر یہی سیاست دان” مطلوبہ سروس“ بحال کرانے کے لئے ہیلپ لائن کا سہارا لیتے ہیں۔

آج کل بھی شاید کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے کہ نمبر بلاک کرنے کے دعوے دار وڈے خان کے لئے مطلوبہ سہولت پھر بحال کر دی گئی ہے اور بڑی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور یہ طےکیا جارہا ہے کہ آگے کیسے چلنا ہے۔ وقت وقت کی بات ہے کہ کل کے طاقت ور آج پھر بیانیے کے دباؤ تلے دب رہے ہیں۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن کی حکمرانی کے شوقین ان ملاقاتوں سے گھبراہٹ کا شکار ہیں اور اب سوچ رہے ہیں کہ بڑے بھائی کے بیانیے کو رد کرکے سو پیاز بھی کھائے اور سو چھتر بھی، مخالفین ان پر الگ سے پھبتیاں کس رہے ہیںاور پوچھتے ہیں ”ہن سکون اے“ ۔

پانی اتنا سر سے گزر چکا ہے کہ (ن) لیگ والوں کا عوام میں سانس لینا بھی مشکل ہو  رہا ہے۔ پھبتیاں کسنے والے کہتے ہیں کہ وڈے میاں صاحب اور مریم بی بی کے ساتھ مولانا اور سب پر بھاری آصف زرداری نے ہاتھ کروا دیا ہے اور کہتے ہیں کہ وڈے خان نے ان سب کو ایک ہی گیند میں بولڈ کر دیا ہے۔ اب سیاست اس نہج پر آپہنچی ہے کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔ وڈے خان جس حد تک جا چکے ہیں اور جس طرح دھونس، دھمکی سےبزور زبان بند دروازے کھلوائے جارہے ہیں، ایسے میں اگر کسی ایک حکومتی اتحادی نے ہاتھ کھینچ لیا یا کہیں طاقت وروں نے دباؤ ڈالا تو یہ چار دن کی نومولود حکومت کسی سنسان سڑک پر گری ملے گی۔

اطلاعات کا ایک طوفان ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے ٹیکنو کریٹس پر مشتمل عبوری قومی سیٹ اپ لایا جارہا ہے جو ہمارے کندھوں سے معاشی بوجھ اتارے گا پھر وڈے خان سمیت سب ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ ابھی وقت ہے آئی ایم ایف برانڈ امپورٹڈ سیٹ اپ سے بچیں، اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور پارلیمان کو مل بیٹھ کر یہ سوچنا چاہئے کہ آخر کب تک بحران در بحران پیدا کرکے پاکستان کو چلایا جاسکتا ہے؟ مکالمہ شروع کریں۔ جس کا دائرہ کار پورے نظام کی تبدیلی ہونا چاہئے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔