آئیے! سازش کرنا سیکھیں

آئیے آج ہم آپ کو سازش کرنا سکھائیں۔ ممکن ہے کہ جب کبھی آپ خان کے دھرنے میں بیٹھے ہوں اور مرشد کے حقیقی پیرو کار تسلیم کرلئے جائیں تو یہ سازشی تھیوری آپ کی زندگی بدل دے۔ آگے آپ کو تفصیلاً سلسلہ وار سازش کرنے کا طریقہ سکھایا جائے گا۔ آخری سطر تک پڑھیے پسند آئے تو زیادہ سے زیادہ لائیک اور شیئر کیجئے، 10شیئر کرنے پر آپ کی ہر سازش کامیاب ہوگی۔ یاد رکھئے کہ سازشی بیانیہ بنانے والے پارٹنرز جب کوئی سازش تیار کرتے ہیں تو اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ سازش پر عمل درآمد کے دوران کسی ایک مہرے کی ساکھ خراب نہ ہو۔ 

سازش کا بنیادی اُصول یہ ہوتا ہے کہ جب کسی فردیا ملک کے خلاف تیار کی جاتی ہے تو باہمی رضا مندی سے فریقین میں یہ طے پاتا ہے کہ کمزور ترین فریق طاقت ور پارٹنر پر حملہ آور ہوگا۔ اس کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈاکرے گا اور مخالفانہ بیانیے کے نام پر ہمہ وقت محاذ گرم رکھا جائے گا۔

 کمزور ترین فریق کو طاقت ور بنا کر عوامی مقبولیت کا ایک ایسا بیانیہ سامنے لایا جائے گا جس سے فریقین کے پوشیدہ مقاصد پورے ہوسکیں ، فرض کرلیں یہ امریکی سازش ہی ہے یا امریکہ، بھارت، اسرائیل گٹھ جوڑ کی کڑی سے کڑی ملائیں تو ممکن ہے آپ آسانی سے سازش کرنا سیکھ جائیں۔ یقیناً آپ کو مرشد کی مودی بارے یہ تمنا تو یاد ہوگی جس میں مرشد خواہش کر رہے تھے کہ مودی دوبارہ اقتدار میں آئے اور پھر مرشد کی یہ دعا قبول ہوئی۔ اب خان اعظم اپنی زندگی کی ایک انوکھی اننگز کھیل رہے ہیں اور یہ سوچ مستند ہوتی جارہی ہے کہ خان پہلے عوام کواوراب خود کو دھوکہ دے رہے ہیں۔

 ان کے رفقائےکار بھی اسی ڈگر پر پختہ ذہن چلتے چلے جارہے ہیں کہ اپنا بیانیہ زور زبردستی کے ساتھ دوسروں پر مسلط کیا جائے۔ اب تو صورتِ حال یہ ہوچکی ہےکہ زبردستی لوگوں کے دماغوں میں یہ بیانیہ ٹھونسا جارہا ہے۔ وقت ہی بتائے گا کہ ان کا یہ اندازِ سیاست انہیں کس منطقی منزل تک پہنچائے گا۔ ویسے تو عمرانی سوچ کے پیرو کار انہیں اپنا مرشد مانتے ہیں۔

 ان کے خلاف کوئی دلیل سننے کو تیار نہیں ہوتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مرشد کا کہا ہی حرفِ آخر ہے۔ بقول ان کے مرشد،مرنے کے بعد جب قبر میں سکون ملے گا تو فرشتے سوال کریں گے کہ کیا تم نے ”مرشد“ کو ووٹ دیا یا نہیں؟ گویا کہ اب مرشد بھی مرید ین کو جنت کے ٹکٹ دینے لگے ہیں۔ میرا موضوع جنت دوزخ کے ٹکٹ پر بحث کرنا ہرگز نہیں اور نہ ہی میں اس بحث میں اُلجھ کر کسی شرک کا مرتکب ہونا چاہتا ہوں۔

 عرض یہ کرنا ہے کہ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جب بھی پاکستان بحرانوں سے نکلنے کے قریب آتا ہے تو مرشد اچانک میدان میں کیوں کود پڑتے ہیں؟ دھرنے کی کال پر مجمع کیوں لگایا جاتا ہے؟ میں یہ نہیں کہتا کہ ان کے دور اقتدار سے قبل کوئی دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں لیکن اس کی توقع ضرور رکھی جاسکتی تھی کہ سی پیک کی کامیابی کے پس منظر میں پاکستان کی معاشی صورت حال ماضی سے کہیں بہتر ٹریک پر چلائی جاسکتی تھی لیکن ایسا نہ ہوسکا کیونکہ خان اعظم نے تاریخ کا سب سے بڑا دھرنا دے کرمیاں نواز شریف کو اقامہ کے نام پر بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے الزام میں نکال باہر کرایا۔ پھر مرشد کا روحانی و لنگر خانی دور آیا۔ پورے پونے چار سال تک ایک صفحے کی ایسی کہانی لکھی گئی کہ مرشد کے پیروکار بھی باں باں کر اٹھے۔ 

بلاتفریق ہر کوئی جھولیاں اٹھا اٹھا کر مرشد سے نجات کی دعائیں مانگ رہا تھا۔ خدا نے یہ دعائیں قبول کرلیں لیکن اتحادی حکومت پر سر منڈاتے ہی اولے پڑے، اور ایسے پڑے کہ جن کے سروں پر تھوڑے بہت بال تھے ، وہ بھی گنجے پن کا شکار ہوگئے۔ اب اگر اتحادی حکومت ایک صفحے پر کھڑی ہے اور ایک بار پھر انہیں نیوٹرل کے سہارے ملک کو معاشی بحران سے نکالنے میں تھوڑی بہت کامیابی ملتی نظر آرہی ہے اور توقع ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں آئی ایم ایف بشمول دوست ممالک سے تقریباً 4 ارب ڈالر ملنے سے ملکی معیشت کو چلانا ممکن ہوجائے گا تو مرشد ایک بار پھر ایک ایسا احتجاجی بیانیہ تیار کرنے جارہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اتحادی حکومت کے نام پر پاکستان کی معیشت کا تیا پانچا کیا جاسکے۔ 

آپ خان اعظم کے سیاسی و احتجاجی پس منظر کا بغور جائزہ لیں کہ یہ کہانی کہاں سے ، کس کے خلاف اور کیوں شروع کی گئی؟ اگر کسی کی یادداشت کمزور ہے تو یاد کروائے دیتے ہیں کہ دھرنے کے دوران سیاسی سطح پر خان اعظم کو لاکھ سمجھانے کی کوششیں اور منتیں کی گئیں کہ کسی طرح کچھ دن دھرنا مو خر کر دیجئے۔ چین کے وزیراعظم کا دورہ مکمل ہونے پر واپس دھرنے پر بیٹھ جائیے لیکن اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ اور خان کی سوچ بالکل نہیں بدلی۔ نتیجہ کیا نکلا؟ پاکستان کا سب سے قابلِ بھروسہ دوست جس کی دوستی ہمالیہ سے بھی اونچی اور مضبوط سمجھی جاتی ہے اس میں دراڑیں پڑیں۔معیشت کا پہیہ جام ہوا اور وزیراعظم خان کے دورِ حکومت میں یہ دراڑ ختم نہ ہوسکی۔ سی پیک ٹھنڈا ٹھار کر دیا گیا، سازش کی بنیاد یہیں سے رکھی گئی۔(جاری ہے)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔