Time 03 جولائی ، 2023
دنیا

ٹائی ٹینک کے سفر کے دوران تباہ ہونے والی آبدوز میں مسافروں نے آخری گھنٹے کیسے گزارے؟

ٹائٹن آبدوز کی ایک پرانی تصویر / اے ایف پی فوٹو
ٹائٹن آبدوز کی ایک پرانی تصویر / اے ایف پی فوٹو

ٹائی ٹینک کے ملبے کی جانب سے سفر کے دوران تباہ ہونے والی سیاحتی آبدوز ٹائٹن پر سوار مسافروں نے ممکنہ طور پر اپنی زندگی کے آخری گھنٹے مکمل تاریکی میں موسیقی سنتے اور سمندر میں جگمگانے والے جانداروں کو دیکھتے ہوئے گزارے۔

یہ دعویٰ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے ایک رپورٹ میں کیا۔

اوشین گیٹ Expeditions کی تیار کردہ یہ آبدوز 18 جون کو بحر اوقیانوس میں ٹائی ٹینک کی جانب جاتے ہوئے حادثے کا شکار ہوئی تھی۔

اس کے نتیجے میں ٹائٹن آبدوز میں سوار کمپنی کے چیف ایگزیکٹو (سی ای او) اسٹاکٹن رش، دو پاکستانی شہری شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے سلیمان داؤد سمیت ہیمش ہارڈنگ اور پال ہنری نارجیولیٹ سب جان کی بازی ہار گئے تھے۔

شہزادہ داؤد کی اہلیہ کرسٹین داؤد نے نیویارک ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ ان کے شوہر اس سفر کے لیے کسی بچے کی طرح پرجوش تھے اور اپنے ساتھ کیمرا لے کر گئے تھے تاکہ سمندر کی تہہ کی تصاویر کھینچ سکیں۔

اس سے قبل برطانوی نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں کرسٹین داؤد نے بتایا تھا کہ ان کا بیٹا سلیمان سمندر کی گہرائیوں میں روبک کیوب حل کرنے کا نیا عالمی ریکارڈ بنانا چاہتا تھا اور اس کے لیے روبک کیوب اپنے ساتھ لےگیا تھا ۔

ان کا کہنا تھا کہ سلیمان نے اس حوالے سے گنیز ورلڈ ریکارڈ میں درخواست بھی دے رکھی تھی۔

نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ کرسٹین داؤد اپنی 17 سالہ بیٹی کے ساتھ ٹائٹن کے سپورٹ جہاز پر موجود تھیں اور انہوں نے آبدوز سے رابطہ منقطع ہونے کا مشاہدہ کیا تھا۔

اوشین گیٹ کی جانب سے پولر پرنس نامی بحری جہاز کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا گیا تھا اور کرسٹین داؤد اپنے خاندان کے ساتھ ٹائٹن کے سفر سے چند دن پہلے ہی اس پر سوار ہوگئی تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ ٹائی ٹینک کے سفر کے لیے روزانہ تیاری کی جاتی تھی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ '18 جون کو سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا اور محسوس ہوتا تھا کہ وہ پہلے بھی متعدد بار ایسا کرچکے تھے'۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت بے تابی سے انتظار کرنے لگی تھیں جب انہوں نے کسی کو کہتے ہوئے سنا کہ ٹائٹن سے رابطہ ٹوٹ گیا۔

مگر اس وقت انہیں یقین دلایا گیا کہ ٹائٹن اور جہاز کے درمیان رابطہ اکثر ٹوٹ جاتا ہے، مگر کچھ دیر بعد انہیں آگاہ کیا گیا کہ ٹائٹن اور اس پر سوار افراد لاپتہ ہوگئے ہیں۔

امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق اوشین گیٹ کے چیف ایگزیکٹو نے مسافروں کو سفر سے قبل ہلکی غذا کے استعمال مشورہ دیا تھا اور سفر کی صبح کافی سے دور رہنے کی ہدایت کی تھی۔

اسٹاکٹن رش نے موٹی جرابیں اور ٹوپی پہننے کا بھی مشورہ دیا تھا کیونکہ سمندر کی گہرائی میں درجہ حرارت گھٹ جاتا ہے۔

اسی طرح مسافروں کو کہا گیا تھا کہ وہ سفر کے دوران کچھ نظر آنے کی توقع نہ کریں کیونکہ فلڈ لائٹس کو پاور بچانے کے لیے بند کر دیا جاتا ہے، البتہ وہ جگمگاتے جانداروں کو ضرور دیکھ سکیں گے۔

یہی وجہ ہے کہ مسافروں نے زندگی کے آخری گھنٹے تاریکی میں گزارے ہوں گے اور محض کمپیوٹر اسکرین کی روشنی ہی نظر آرہی ہوگی۔

اسٹاکٹن رش نے مسافروں کو فون میں کچھ گانے بھی اسٹور کرنے کی ہدایت کی تھی جو بلیو ٹوتھ اسپیکر پر چلائے جاتے۔

امریکی کوسٹ گارڈ کے مطابق ٹائٹن آبدوز 18 جون کو صبح ساڑھے 7 بجے اپنے سفر پر روانہ ہوئی اور سفر کے ایک گھنٹے 45 منٹ بعد اس سے رابطہ منقطع ہوگیا۔

کئی دن کی تلاش کے بعد اس کا ملبہ دریافت ہوا اور حکام کے مطابق اس بات کا قوی امکان ہے کہ آبدوز ٹائٹن لاپتہ ہونے کے فوراً بعد ہی تباہ ہو گئی تھی۔

گزشتہ دنوں امریکی کوسٹ گارڈ نے بتایا تھا کہ ملبے کے ساتھ ممکنہ طور پر انسانی باقیات بھی ملی ہیں۔

امریکا اور کینیڈا کے حکام کی جانب سے حادثے کی وجہ جاننے کے لیے تحقیقات کی جا رہی ہے۔

مزید خبریں :