07 اگست ، 2023
برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد تاجر کی کراچی میں اراضی پر پولیس کی جانب سے بار بار مافیاز کے قبضہ کرانے کا الزام سامنے آیا ہے۔
ہفتے کو سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر ناظر کے ذریعے پولیس سے واگزار کرائی اراضی پر رات گئے اہلکاروں نے پھر قبضہ کرادیا۔
جیو نیوز کو دستیاب عدالتی تصدیق شدہ دستاویزات کے مطابق سرجانی روڈ پر سروے نمبر 193/1، 193/2 اور 193/18 کی اراضی 16 سال سے برطانوی شہری لارڈ شہزاد علی کی ملکیت ہے۔
ریکارڈ کے مطابق شیخ بدردین نے دیہہ منگھو پیر میں 10 ایکڑ اراضی 1975 میں 99 سالہ لیز پر سندھ حکومت سے حاصل کی تھی۔ شیخ بدرالدین نے اپنے جنرل اٹارنی اسلم قریشی کے ذریعے یہ اراضی 22 فروری 2007 کو فروخت کی تھی اور برطانوی شہری لارڈ سید شہزاد علی نے 7599 گز یہ اراضی 43 لاکھ 70 ہزار میں خریدی تھی۔
16 سال قبل کی ادائیگی اور سرکاری فیسیں بینکوں میں جمع کرانے کی تمام رسیدیں موجود ہیں۔ عدالت میں تمام سرکاری اداروں کی جانب سے اراضی کی سید شہزاد علی کے نام ملکیت کی تصدیق کے شواہد بھی ہیں۔
دستاویزات کے مطابق قرضے کے عوض یہ اراضی مالکان کی جانب سے حبیب میٹرو پولیٹن بینک کلفٹن برانچ میں گروی بھی رکھی رہی ہے۔
اراضی کے منتظمین کے مطابق 15 جولائی کو مسلح افراد نے اچانک زمین پر دھاوا بول کر فائرنگ کی اور چوکیداروں کو زدوکوب کر کے اراضی پر قبضہ کر لیا۔ جس کے خلاف پولیس اور انتظامیہ سے مدد طلب لی گئی مگر کوئی نہیں پہنچا، اس کے برعکس پولیس نے قبضہ گروپ کی ہی مدد کی۔
منتظمین کا کہنا ہے کہ ایک ادارے کی مداخلت سے زمین کا قبضہ واگزار کرایا گیا مگر 22 جولائی کی رات کو منگھو پیر پولیس نے کئی موبائلوں اور نفری کے ذریعے انتظامیہ اور گارڈز کو مارپیٹ کرکے اراضی سے بے دخل کردیا اور اراضی پر پولیس کی موبائلیں اور نفری تعینات کر دی۔
قبضے کے خلاف مالکان نے پھر قانونی چارہ جوئی کی اور سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔
تاہم سندھ ہائی کورٹ نے سید شہزاد علی کے حق میں فیصلہ دیا اور پولیس کو زمین کا قبضہ ختم کرنے کا حکم دیا۔
دستاویزات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر ناظر نے ہفتہ 5 اگست کو اراضی سے منگھو پیر پولیس کا قبضہ ختم کرایا۔ اراضی پر قابض منگھو پیر پولیس کے اہلکاروں کو بے دخل کرکے زمین مالکان کے حوالے کی گئی۔ ناظر کے چھاپے اور منگھوپیر پولیس کے قبضے کے خاتمے کی ویڈیوز بھی موجود ہیں۔ ناظر نے اراضی کا قبضہ اصل مالکان کی انتظامیہ کو دے کر ہائی کورٹ میں پیش کرنے کیلئے تصاویر بھی بنائیں جبکہ پولیس سے سکیورٹی گارڈز کے اسلحہ اور لائسنس بھی واپس کردیے گئے۔
انتظامیہ کے مطابق ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب کئی پولیس موبائلیں درجنوں افراد کو لے کر پلاٹ پر پہنچ گئیں۔ پولیس نے اراضی پر موجود انتظامیہ اور سکیورٹی گارڈز کو حراست میں لے لیا۔ پولیس کی سرپرستی میں زمین پر قبضہ کرنے والوں نے شدید ہوائی فائرنگ بھی کی۔
سکیورٹی گارڈز کے مطابق مددگار 15 اور پولیس کنٹرول پر فون کرنے کے باوجود کوئی مدد کو نہ پہنچا۔
انتظامیہ نے حالیہ کارروائی کا الزام بھی منگھو پیر پولیس پر عائد کیا مگر ایس ایچ او منگھوپیر خالد میمن کا کہنا ہے کہ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب کی کارروائی میں منگھو پیر پولیس ملوث نہیں ہے۔انہوں نے شبہ ظاہر کیا کہ اس کارروائی میں کوئی اور ادارہ ملوث ہو سکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق اس 4 ایکڑ اراضی پر کلفٹن کے بڑے ہاؤس اور بڑی سیاسی پارٹی کے دو سرکردہ رہنما قبضہ کرنے کے در پہ ہیں اور اسی بڑے کے سسٹم کے کہنے پر پولیس ان مافیا کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ اراضی پر بار بار قبضے میں ملوث ربڑی اور کھرل نامی گروپ پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں کے مبینہ فرنٹ مین ہیں۔