Time 14 ستمبر ، 2023
کاروبار

آئی بی نے ملک اور معیشت کا خون نچوڑنے والے مافیاز کیخلاف رپورٹ جمع کرادی

انٹیلی جنس بیورو کی سخت محنت کے بعد 76؍ ٹرانسپورٹرز اور 29؍ اسمگلرز اور ان کے معاونین کی نشاندہی ہوئی ہے جو ایرانی تیل کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں/ فائل فوٹو
انٹیلی جنس بیورو کی سخت محنت کے بعد 76؍ ٹرانسپورٹرز اور 29؍ اسمگلرز اور ان کے معاونین کی نشاندہی ہوئی ہے جو ایرانی تیل کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں/ فائل فوٹو

اسلام آباد: اسمگلنگ، ٹیکس چوری، منشیات کے کاروبار، کرنسی کے غیر قانونی کاروبار اور افغان تجارتی راہداری (ٹرانزٹ ٹریڈ) کے غلط استعمال کے حوالے سے انٹیلی جنس بیورو کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف مافیاز ملک اور اس کی معیشت کا خون نچوڑ رہے ہیں۔

انٹیلی جنس بیورو کی جانب سے حکومت کو جمع کرائی گئی رپورٹ سے اس بات کی بھی عکاسی ہوتی ہے کہ پاکستان کو درپیش معاشی دہشت گردی کے خطرے کے تمام پہلوئوں سے نمٹنے کیلئے ایجنسی کیا کر رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، صرف ایرانی پٹرولیم منصوعات کی غیر قانونی سپلائی سے قومی خزانے کو کم از کم 225؍ ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ اسمگل شدہ ایرانی پٹرول سڑک کنارے پٹرول بیچنے والی دکانوں پر غیر قانونی طور پر فروخت ہو رہا ہے اور اب تو صورتحال یہ ہے کہ یہ ایرانی تیل ملک بھر کے باضابطہ پٹرول پمپس پر بھی فروخت ہونے لگا ہے۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ انٹیلی جنس بیورو کی سخت محنت کے بعد 76؍ ٹرانسپورٹرز اور 29؍ اسمگلرز اور ان کے معاونین کی نشاندہی ہوئی ہے جو ایرانی تیل کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔

مزید برآں، ملک بھر میں 995؍ غیر قانونی اور غیر لائسنس یافتہ پٹرول پمپس کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جو ایرانی تیل کی خرید و فروخت میں ملوث ہیں۔ پاکستانی روپے کی قدر میں زبردست گراوٹ کے بارے میں رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسٹاک مارکیٹ کی نازک صورتحال اور ریئل اسٹیٹ اور کیپیٹل مارکیٹس پر کیپیٹل گین ٹیکس نافذ کیے جانے کے بعد سرمایہ کاروں نے اپنا کالا دھن غیر ملکی کرنسی کی خریداری پر خرچ کرنا شروع کر دیا جس سے کمزور معیشت کے حامل ملک پاکستان میں روپے کی قدر میں کمی واقع ہوئی۔

اس کے علاوہ، افغانستان کے ساتھ سالانہ چار ارب ڈالرز کا سالانہ تجارتی حجم منشیات کی تجارت، پاکستان سے کرنسی اسمگل کرکے افغانستان لیجانے اور حوالہ ہنڈی کی رسیدوں کے ذریعے پورا کیا جا رہا ہے۔

کرنسی کے اسمگلروں اور غیر ملکی کرنسی مارکیٹ میں شرارت انگیزی پر مبنی مذموم منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے انٹیلی جنس بیورو نے 122 کرنسی اسمگلروں اور 40 ایکسچینج کمپنیوں کی نشاندہی کی ہے جو کرنسی مارکیٹس کی ہیرا پھیری میں ملوث ہیں۔

منشیات کے استعمال نے ہمارے سماجی تانے بانے کو براہ راست متاثر کیا ہے۔ کچھ بے ضمیر منشیات فروشوں نے شہری مراکز میں تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانے کے ساتھ عالمی منڈی میں منشیات کی فروخت سے کالا دھن جمع کیا ہے۔

آئی بی نے پاکستان بھر میں 717 منشیات فروشوں اور مشرق وسطیٰ اور یورپ کے مختلف ممالک میں سرگرم منشیات کے 22 بین الاقوامی نیٹ ورکس کی نشاندہی کی ہے جن میں اسلام آباد میں سرگرم ایک بدنام زمانہ نائجیرین گروپ بھی شامل ہے۔

تقریباً 240؍ ارب روپے کی ٹیکس چوری کو دیکھتے ہوئے ٹوبیکو (تمباکو) کی صنعت پاکستان کی بیمار معیشت میں پانچ سب سے بڑی ٹیکس چور صنعتوں میں شامل ہے۔ مارچ 2023 میں پہلے اور دوسرے درجے کی سگریٹس پر بھاری ٹیکسوں کے نفاذ کی وجہ سے اسمگلنگ میں اضافہ ہوا۔

اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے، آئی بی نے اس غیر قانونی سرگرمی میں ملوث افراد کے خلاف کارروائیاں شروع کیں اور 62 سگریٹ اسمگلرز کی نشاندہی کی ہے، تمباکو کی اسمگلنگ کیلئے استعمال ہونے والے راستوں کا سراغ لگایا اور غیر قانونی سگریٹ کے ذخیرہ کرنے کیلئے استعمال ہونے والے 40 گوداموں کا سراغ لگایا۔

جعلی سگریٹ کے تین بڑے غیر قانونی مینوفیکچرنگ یونٹس اور ضلع صوابی (خیبر پختونخوا) میں ایک غیر اعلانیہ گودام پر چھاپے کے نتیجے میں دس لاکھ تیس ہزار کلوگرام نان ڈیوٹی تمباکو برآمد کی اور اس تمباکو کے ذریعے تقریباً 2.645؍ ارب روپے کی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی چوری کی گئی۔

رپورٹ کے مطابق افغان تجارتی راہداری معاہدے (افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ) کے تحت درآمد کی جانے والی چائے کا بڑا حصہ ریورس کارگو کے ذریعے پاکستان میں واپس اسمگل کیا جاتا ہے۔

آئی بی نے 63 بڑے چائے کے اسمگلروں اور اسمگل شدہ چائے رکھنے کیلئے 29 گوداموں کی تفصیلات پیش کی ہیں۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں گاڑیوں کے ٹائرز کی سالانہ طلب کا 49 فیصد حصہ اسمگلنگ کے ذریعے پورا کیا جاتا ہے جس سے نہ صرف مقامی مینوفیکچرنگ انڈسٹری بری طرح متاثر ہو رہی ہے بلکہ قومی خزانے کو بھی بھاری نقصان ہو رہا ہے۔

رپورٹ میں آئی بی نے 66؍ ٹائر اسمگلرز اور 71؍ گوداموں کے بارے میں تفصیلات بتائی ہیں۔ گندم اور چینی کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گندم پیدا کرنے والا دنیا کا آٹھواں بڑا اور اور چینی پیدا کرنے والا دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ملک ہونے کے باوجود پاکستان کو غذائی تحفظ کے مسئلے کا سامنا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اشیائے ضروریہ اور اشیائے خوردنوش (جیسا کہ چینی، گندم، یوریا، کھاد وغیرہ) کی ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ ہوتی ہے۔

آئی بی نے دعویٰ کیا کہ ادارے نے گندم کی پوری سپلائی چین کی نگرانی کی، اسٹیک ہولڈرز کی نقشہ کشی کی اور یہ بھی پتہ لگایا کہ ان اشیاء کی سپلائی چین میں کون خلل ڈالتے ہوئے مذموم کردار ادا کر رہا ہے۔

2023ء کے دوران، گندم کی ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ میں ملوث افراد کیخلاف ضلعی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے آئی بی کی نشاندہی کے ذریعے مجموعی طور پر 9237؍ آپریشنز کیے جن میں 6؍ لاکھ 41؍ ہزار 427؍ میٹرک ٹن گندم برآمد کی گئی جس کی مالیت 73؍ ارب روپے تھی۔

آئی بی نے گندم کوٹہ کے غلط استعمال میں ملوث 57 ذخیرہ اندوزوں، 21 اسمگلروں اور 534 آٹا چکیوں کی بھی نشاندہی کی ہے اور ان کی تفصیلات متعلقہ محکموں کے ساتھ شیئر کی ہیں۔

مافیاز کی جانب سے چینی کی افغانستان اسمگلنگ اور اس کی ذخیرہ اندوزی کے حوالے سے انٹیلی جنس بیورو نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ 2023 کے دوران، آئی بی کی اطلاع پر ضلعی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ میں ملوث افراد کیخلاف 476 آپریشنز کیے جن میں 93؍ ہزار 182 میٹرک ٹن چینی برآمد کی گئی جس کی مالیت 13؍ ارب روپے ہے۔

اس کے علاوہ اسمگلنگ میں ملوث 109 افراد اور 14 شوگر ملز کی شناخت آئی بی نے کی۔ آئی بی نے کھاد کی ذخیرہ اندوزی اور اس کی افغانستان کو اسمگلنگ روکنے کیلئے بھی فوری اقدامات کیے۔ 2023 کے دوران، آئی بی نے ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کے خلاف ملک بھر میں کریک ڈاؤن شروع کرنے میں ضلعی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کی، مجموعی طور پر 312 آپریشن کیے گئے جن میں 47؍ ہزار 222؍ میٹرک ٹن کھاد برآمد کی گئی جس کی مالیت 2.6 ارب روپے تھی۔

مزید برآں، آئی بی نے ذخیرہ اندوزی میں ملوث 666 افراد اور 132 اسمگلروں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کی تفصیلات متعلقہ حکام کو فراہم کر دی ہیں۔

مزید خبریں :