Time 21 نومبر ، 2023
پاکستان

سابق وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے پاس جنرل فیض کے ملوث ہونیکا ثبوت نہیں

بحیثیت وزیراعظم اس وقت ان کے پاس شواہد تھے اور نہ ایسی سرکاری رپورٹ کہ جس سے پتہ چلے کہ دھرنے کے پیچھے فیض حمید کا ہاتھ تھا: شاہد خاقان عباسی/ فائل فوٹو
بحیثیت وزیراعظم اس وقت ان کے پاس شواہد تھے اور نہ ایسی سرکاری رپورٹ کہ جس سے پتہ چلے کہ دھرنے کے پیچھے فیض حمید کا ہاتھ تھا: شاہد خاقان عباسی/ فائل فوٹو

اسلام آباد: 2017 میں مسلم لیگ نون کی حکومت کے پاس براہِ راست کوئی شواہد یا سرکاری سطح پر معلومات دستیاب نہیں تھیں کہ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے فیض آباد دھرنے کے پیچھے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) فیض حمید کا ہاتھ تھا۔

اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر داخلہ احسن اقبال نے رابطہ کرنے پر کہا کہ ان کے پاس شواہد تھے اور نہ سرکاری سطح پر ایسی معلومات کہ جس سے پتہ چلے کہ ٹی ایل پی کے 2017 میں فیض آباد کے مقام پر دھرنا کرانے میں جنرل (ر) فیض حمید کا ہاتھ تھا۔

پیر کو دی نیوز کی جانب سے رابطہ کرنے پر سابق وزیراعظم اور سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ کچھ واقعاتی شواہد ایسے تھے کہ ٹی ایل پی کے دھرنے میں سہولت کاری میں غیر معمولی مدد کی گئی تھی لیکن فیض حمید کا نام لینا قیاس آرائی ہوگا۔

جنرل فیض حمید اس وقت میجر جنرل تھے اور ڈی جی (سی) آئی ایس آئی کے عہدے پر کام کر رہے تھے۔ 

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ بحیثیت وزیراعظم اس وقت ان کے پاس شواہد تھے اور نہ ایسی سرکاری رپورٹ کہ جس سے پتہ چلے کہ دھرنے کے پیچھے فیض حمید کا ہاتھ تھا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر حال ہی میں تشکیل دیے گئے کمیشن کی جانب سے انہیں بلایا گیا تو وہ جائیں گے اور جو بھی معلومات دستیاب ہوں گی وہ فراہم کریں گے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے پانامہ کیس میں میاں نواز شریف کو نا اہل قراردیے جانے کے بعد شاہد خاقان عباسی نے ان کی جگہ نون لیگ کی حکومت اور وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت کے وزیر داخلہ احسن اقبال دھرنا ختم کرانے کیلئے براہِ راست ٹی ایل پی کی قیادت سے بات چیت کر رہے تھے۔ 

انہوں نے واقعہ یاد کرتے ہوئے بتایا کہ دونوں فریقین کے درمیان رات دیر سے معاہدہ ہونے سے گھنٹوں قبل انہوں نے وزیر داخلہ سے بات کی اور انہیں بتایا کہ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور چند سینئر پولیس افسران ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدے پر دستخط کریں۔

انہوں نے کہا کہ اگلی صبح وزیر داخلہ نے انہیں معاہدے کے حوالے سے بریفنگ دی اور کہا کہ ٹی ایل پی کے اصرار پر انہوں نے خود (احسن اقبال) اور جنرل فیض نے حکومت کی طرف سے معاہدے پر دستخط کیے، عباسی نے کہا کہ انہیں بتایا گیا کہ ٹی ایل پی کی قیادت ڈپٹی کمشنر اور پولیس افسران کے دستخط کے ساتھ معاہدہ قبول کرنے کو تیار نہیں تھی۔

رابطہ کرنے پر احسن اقبال کا کہنا تھا کہ وزیر داخلہ کی حیثیت سے ان کے پاس سرکاری سطح پر ایسی معلومات نہیں تھیں کہ دھرنے میں جنرل فیض کا ہاتھ تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ان کی اور وزیراعظم (شاہد خاقان) کی رائے تھی کہ جرنیل کو معاہدے پر دستخط نہیں کرنے چاہئیں لیکن اس کے باوجود جنرل فیض ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے والوں میں شامل تھے تاکہ فیض آباد پر ٹی ایل پی کا دھرنا ختم کرایا جا سکے۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ جنرل فیض کا اصرار تھا کہ اگر وہ بطور ضامن معاہدے میں شامل نہ ہوئے تو ٹی ایل پی والے معاہدہ قبول نہیں کریں گے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے تحریر کردہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے میں، سپریم کورٹ نے اس تاثر کا حوالہ دیا تھا کہ آئی ایس آئی ایسے معاملات میں مداخلت کرتی ہے یا ملوث ہوتی ہے جن سے اس کا واسطہ نہیں۔

تاہم، اس قیاس آرائی کو ختم نہیں کیا گیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ ’ایئر مارشل اصغر خان کے کیس کے فیصلے کے مطابق سیاست، میڈیا اور دیگر ’’غیرقانونی سرگرمیوں‘ میں آئی ایس آئی اور مسلح افواج کے ارکان کی شمولیت بند ہونا چاہئے تھی۔

اس کے بجائے جب ٹی ایل پی کے دھرنے کے شرکاء نے باوردی افراد سے نقد رقم وصول کی تو ان کے ملوث ہونے کا احساس بڑھ گیا۔ آئی ایس پی آر کے ڈی جی نے بھی سیاسی معاملات پر تبصرہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ مسلح افواج، اور مسلح افواج کے اہلکاروں کے کنٹرول میں موجود تمام ایجنسیاں، بشمول آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس پی آر، پاکستان یعنی کے اس کے عوام کی خدمت کرتی ہیں۔

ایسا تاثر نہیں آنا چاہئے کہ یہ سب کسی خاص سیاسی جماعت، دھڑے یا سیاستدان کی حامی ہیں۔ اگر مسلح افواج کا کوئی اہلکار کسی بھی قسم کی سیاست کرتا ہے یا میڈیا میں ہیرا پھیری کی کوشش کرتا ہے تو وہ مسلح افواج کی سالمیت اور پیشہ ورانہ مہارت کو مجروح کرتا ہے۔

آئین میں مسلح افواج کے فرائض واضح طور پر بیان کیے گئے ہیں کہ وہ وفاقی حکومت کی ہدایت پر بیرونی جارحیت یا جنگ کے خطرے کیخلاف پاکستان کا دفاع کرے گی، اور قانون کے تابع رہتے ہوئے جب بھی مطالبہ کیا جائے گا تو سول حکومت کی مدد کیلئے کام کریں گے۔

ہمیں دوسروں کیلئے اپنی جانیں دینے والوں کی عزت اور وقار کو چند لوگوں کے غیر قانونی کاموں سے مجروح نہیں ہونے دینا چاہئے۔‘‘ سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ حکومت پاکستان کو وزارت دفاع کے ذریعے اور متعلقہ چیفس آف آرمی، نیوی اور ایئر فورس اپنی کمان میں ایسے اہلکاروں کے خلاف کارروائی شروع کریں جو اپنے حلف کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔

مزید خبریں :