02 اپریل ، 2024
سوال: ہم نے تعمیر نو کے لیے اپنی مسجد شہید کردی تھی جس کی وجہ سے رمضان میں مسجد میں کوئی شخص اعتکاف نہ کرسکا،کیا اس کا کوئی گناہ ہوگا ؟(نذرمحمد )
جواب: رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف ’سنّت مؤکّدہ علیٰ الکفایہ ‘ ہے۔شہرکے کسی محلے یا قصبے اور بستی میں اگر کسی ایک نے کرلیا تو سب بری الذمہ ہوجائیں گے ا ور اگر کسی نے نہ کیا تو سب سے جواب دہی ہوگی۔
سنّت مؤکدہ علیٰ الکفایہ ہونے کا معنیٰ یہ ہے کہ محلے میں کسی ایک کی جانب سے ادائیگی پر تمام لوگ بری الذمہ ہوگئے۔ تنویرالابصار مع الدرالمختار میں ہے : ترجمہ: ’’سنت کفایہ، اس کی مثال تراویح کی نماز کا باجماعت قائم کیاجانا ہے، پس اگر بعض نے قائم کی تو باقی لوگوں سے جماعت ساقط ہوگئی(نہ کہ نمازِ تراویح) ،تو وہ بلاعذر اُس کے ترک کیے جانے پر گناہ گار نہیں ہوں گے اور اگر اعتکاف سنت عین ہوتا، تب بھی ترکِ سنّت کا گناہ ترکِ واجب سے کم ہوگا،(جلد3،ص:383)‘‘۔
بہتر تویہ تھا کہ مسجد میں خیمہ لگا کر کسی کو اعتکاف کے لیے بٹھا دیاجاتا لیکن اگر محلے میں اور مساجد بھی ہیں جن میں محلے کے لوگوں نے اعتکاف کیاہو ،تو کافی ہے، تمام محلے سے ساقط ہوگیا، صاحبِ مراقی الفلاح علامہ حَسَن بن عمار بن علی شرنبلالی لکھتے ہیں:’(اعتکاف )کسی ایسی مسجد میں جہاں پانچ وقت نماز باجماعت ہوتی ہو، (اعتکاف کی) نیت سے ٹھہرناہے، پس ایسی مسجد جہاں باجماعت نماز نہ ہوتی ہو، اعتکاف صحیح نہیں ہے، یہی مختار مذہب ہے،(جلد2،ص:373-374)‘۔
صاحبِ مراقی الفلاح کے اِس قول کی یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ اگر قرب وجوار میں اور بھی مساجد ہوں، جہاں باجماعت نماز ہوتی ہو، تو ایسی صورت میں اُسے مسجدِ جماعت میں ہی اعتکاف کرنا چاہیے، اِس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی عذر کے سبب کسی مسجد میں اعتکاف نہیں ہوسکا اور اسی محلے کی دوسری مسجد میں اعتکاف کیا گیا ہے، تو یہ اعتکاف محلے بھر سے حرج اٹھانے کے لیے کافی ہے،کوئی گناہ گار نہیں ہوا۔