Time 07 اکتوبر ، 2024
دنیا

ایران کی اہم جوہری تنصیبات کہاں ہیں اور انہیں کس مقصد کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے؟

ایران کی اہم جوہری تنصیبات کہاں ہیں اور انہیں کس مقصد کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے؟
امریکا اور اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے (IAEA) کا ماننا ہے کہ ایران کا ایک مربوط خفیہ جوہری ہتھیاروں کا پروگرام تھا جسے اس نے 2003 میں روک دیا تھا

ویانا: ایران کی جانب سے اسرائیل پر گزشتہ منگل کو میزائل حملے کے بعد قیاس آرائیاں شروع ہوگئی ہیں کہ اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرسکتا ہے جیسا کہ وہ طویل عرصے سے دھمکی دیتا آیا ہے۔ 

رائٹرز کی رپورٹ میں ایران کی کچھ اہم جوہری تنصیبات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

ایران جوہری ہتھیاروں کے کتنے قریب ہے؟

ایران کا جوہری پروگرام مختلف مقامات پر پھیلا ہوا ہے اگرچہ اسرائیلی فضائی حملوں کا خطرہ عشروں سے موجود ہے تاہم ان تنصیبات میں سے صرف کچھ کو زیر زمین تعمیر کیا گیا ہے۔

امریکا اور اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے (IAEA) کا ماننا ہے کہ ایران کا ایک مربوط خفیہ جوہری ہتھیاروں کا پروگرام تھا جسے اس نے 2003 میں روک دیا تھا، ایران نے کبھی بھی ایسے کسی پروگرام کی موجودگی یا منصوبہ بندی سے انکار کیا ہے۔

2015 میں ایران نے عالمی طاقتوں کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت اپنی جوہری سرگرمیوں پر پابندیاں قبول کیں جس کے بدلے میں اسے بین الاقوامی پابندیوں میں نرمی ملی۔

 یہ معاہدہ اس وقت ناکام ہوگیا جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں امریکا کو اس سے باہر نکال لیا اور ایران نے اگلے ہی سال ان پابندیوں کو ترک کرنا شروع کردیا۔

ایران نے تب سے یورینیم کی افزودگی کے پروگرام کو بڑھایا ہے جس سے وہ ’بریک آؤٹ ٹائم‘ کم ہوگیا ہے( یعنی وہ وقت جس میں ایران اتنی افزودہ یورینیم تیار کرسکتا ہے کہ وہ اسے ایٹمی بم بنانے کے لیے استعمال کرسکے)۔

2015 کے معاہدے کے تحت یہ وقت ایک سال تھا مگر اب یہ مبینہ طور پر ہفتوں میں سکڑ گیا ہے، اگرچہ بم بنانے کے لیے مواد تیار کرنے میں زیادہ وقت لگے گالیکن یہ کتنا وقت ہوگا یہ واضح نہیں ہے اور اس پر بحث جاری ہے۔

ایران اب اپنے دو مقامات پر 60 فیصد تک افزودگی کررہا ہے جو 90 فیصد تک ہتھیاروں کے معیار کی سطح کے قریب ہے۔

اقوام متحدہ کے نگراں ادارے IAEA کے اندازے کے مطابق ایران کے پاس اتنا مواد ہے کہ اگر اسے مزید افزودہ کیا جائے تو وہ تقریباً 4 بموں کے لیے کافی ہوگا۔

نطنز

نطنز ایران کے افزودگی پروگرام کا مرکز ہے جو تہران کے جنوب میں قم شہر کے قریب واقع ہے، نطنز میں افزودگی کے دو بڑے پلانٹس موجود ہیں: زیر زمین فیول انرچمنٹ پلانٹ (FEP) اور زمینی سطح پر پائلٹ فیول انرچمنٹ پلانٹ (PFEP)۔

2002 میں جلاوطن ایرانی اپوزیشن گروپ نے انکشاف کیا کہ ایران خفیہ طور پر نطنز میں جوہری تنصیبات تعمیر کررہا ہے جس کے بعد سے ایران اور مغربی ممالک کے درمیان جوہری پروگرام کو لے کر سفارتی تنازع شروع ہوگیا جو آج تک جاری ہے۔

FEP کمرشل پیمانے پر افزودگی کے لیے بنایا گیا تھا اور یہاں 50000 سینٹری فیوجز لگانے کی صلاحیت موجود ہے،  اس وقت یہاں تقریباً 14000 سینٹری فیوجز نصب ہیں جن میں سے تقریباً 11000 کام کر رہے ہیں اور 5 فیصد تک افزودہ یورینیم تیار کر رہے ہیں۔

نطنز میں موجود FEP کے بارے میں سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ یہ تین منزلہ زیر زمین پلانٹ ہے اور یہ سوال بھی موجود ہے کہ اسرائیلی فضائی حملے اسے کتنا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

FEP کی سینٹری فیوجز کو دیگر طریقوں سے بھی نقصان پہنچایا گیا ہے جس میں اپریل 2021 میں ایک دھماکا اور بجلی کی بندش شامل ہیں، ایران نے ان واقعات کو اسرائیل کی جانب سے حملہ قرار دیا تھا۔

PFEP میں صرف چند سو سینٹری فیوجز موجود ہیں لیکن یہاں 60 فیصد تک افزودگی جاری ہے۔

فردو

قم کے دوسری جانب فردو میں ایک افزودگی سائٹ موجود ہے جو پہاڑ کے اندر کھودی گئی ہے اور امکان ہے کہ یہ FEP کے مقابلے میں فضائی حملوں سے زیادہ محفوظ ہے۔

2015 کے معاہدے میں فردو میں کسی قسم کی افزودگی کی اجازت نہیں دی گئی تھی، مگر اب وہاں 1000 سے زیادہ سینٹری فیوجز کام کر رہے ہیں جن میں سے کچھ جدید IR-6 مشینیں ہیں جو 60 فیصد تک افزودگی کر رہی ہیں۔

ایران نے حال ہی میں فردو میں سینٹری فیوجز کی تعداد دوگنی کردی ہے اور تمام نئی مشینیں IR-6 ہیں۔

اصفہان

ایران کا ایک بڑا جوہری مرکز اصفہان کے نواح میں واقع ہے جو ایران کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے، یہاں فیول پلیٹ فیبری کیشن پلانٹ اور یورینیم کنورژن پلانٹ موجود ہیں جو یورینیم کو اس شکل میں تبدیل کرتا ہے جو سینٹری فیوجز میں استعمال ہوتا ہے۔

اصفہان میں ایسے آلات بھی ہیں جو یورینیم میٹل بنانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں جو ایک حساس عمل ہے کیونکہ اسے ایٹم بم کا مرکز بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

خنداب

خنداب میں ایران کا ایک بھاری پانی کا ریسرچ ری ایکٹر موجود ہے جسے پہلے اراک کہا جاتا تھا، بھاری پانی کے ری ایکٹرز جوہری پھیلاؤ کا خطرہ رکھتے ہیں کیونکہ وہ آسانی سے پلوٹونیم تیار کر سکتے ہیں جو ایٹم بم بنانے کے لیے یورینیم کی طرح استعمال ہوتا ہے۔

تہران ریسرچ سینٹر

ایران کے جوہری تحقیقاتی مراکز میں ایک ریسرچ ری ایکٹر بھی شامل ہے۔

بوشہر

ایران کا واحد فعال جوہری پاور پلانٹ بوشہر میں موجود ہےجو خلیج فارس کے ساحل پر واقع ہے، اس پلانٹ میں روسی ایندھن استعمال ہوتا ہے جسے استعمال کے بعد روس واپس منتقل کردیا جاتا ہے۔

مزید خبریں :