07 جنوری ، 2014
اسلام آباد…جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف پاک فوج کے ایس ایس جی گروپ سے تعلق رکھتے ہیں،وہ ایسے کمانڈو ہیں جنہیں خود پر ناز رہا، انہوں نے کئی خود کش حملوں کا سامنا کیا۔انہوں نے مارنے یا مرنے کی تربیت لی تھی۔ انہوں نے خطرات سے کھیلنے کا ہنر سیکھا تھا۔ وہ کمانڈو تھے جسے خود پر ناز تھا۔ ان کا نام جنرل پرویزمشرف تھا۔ 12اکتوبر1999ء کو انہوں نے منتخب حکومت کا پوری قوت کے ساتھ تختہ الٹ دیا۔ مشرف پر خودکش حملے ہوئے، انہیں دہشت گردوں نے مارنے کی کوششیں کی مگر ان کا حوصلہ بلند تھا۔ وہ مقابلہ کرنا جانتے تھے، انہوں نے کئی لیڈروں سے دو ٹوک الفاظ میں بات کی۔ پرویزمشرف نے اس اسمبلی سے بھی مکے لہرا کر خطاب کر دکھایا جہاں کئی سیاسی جماعتیں ان کی پرچھائی بھی دیکھنانہیں چاہتی تھیں۔1999ء سے 2007ء آگیا جب اقتدار میں ان کے دن پورے ہوئے تو وہ سلامی لے کر لیکچر دینے امریکا اور برطانیہ چلے گئے۔ پرویز مشرف کو سب نے سمجھایا، بجھایا، وطن مت لوٹنا، مگروہ نہ مانے، انہوں نے مرنا یا مارنا سیکھا تھا، ڈرنا ان کی سرشت میں شامل ہی نہ تھا۔ وہ کمانڈو تھے جنہیں خود پر ناز تھا۔ وطن لوٹے تو چند سو افراد کا مجمع ہی انہیں جم غفیر لگا۔ گھبرانے والے وہ تھے ہی نہیں، وہ خود کو نجات دہندہ سمجھتے تھے جو منتخب ہو کر وزیراعظم یا صدر بننے کے سپنے دیکھ رہے تھے۔ ان کی پارٹی کے لوگ انہیں چھوڑ چکے تھے مگر ان کی کمر سیدھی رہی، کندھے مضبوط رہے۔ وہ کمانڈو تھے۔ جنرل رہ چکے تھے۔ پھر حساب کتاب کے دفتر کھل گئے۔ اپنے دور میں کیے گئے کاموں کی مشرف کو پیشیاں بھگتنا پڑگئیں۔ وہ مردِ میداں بن گئے، پیشیاں بھگتنے لگے۔ کئی میں ضمانت مل گئی۔ گھر جب سب جیل تھا۔ وہاں آزادی مل گئی۔ لوگ ملنے آنے لگے، مشرف پوری توانائیوں کے ساتھ انٹرویوز دینے لگے۔ 2013ء یادگار بنانے کے لیے ہشاش بشاش مشرف نے 31دسمبر کو سابق فوجیوں کو جمع کر کے خطاب بھی کر لیا، عوام کا لیڈر بننے کی بات کرلی۔ ان جنرل ریٹائرڈپرویزمشرف کو غداری کیس کا بھی سامنا تھا۔ سال نو کے پہلے ہی دن پیشی پر وہ حاضر ہی نہ ہوئے۔ عدالت نے پیشی لازمی کی تووہ گھر سے نکلے مگر عدالت جانے کی بجائے اسپتال جانا پڑگیا۔