23 نومبر ، 2014
تھرپارکر.......تھر کے صحرا میں موت کا کھیل جاری ہے ۔ غذائی قلت کے عفریت نے آج بھی دوبچوں کو نگل لیا جس کے بعد رواں ماہ میں انتقال کرجانے والے بچوں کی تعداد58 ہوگئی ہے۔ تھرکی پیاسی زمین اوراس کے بھوکے پیاسے باشندے دونوں ہی ان دنوں اداس ہیں ۔ پانی اورخوراک کے لئے دن بھر جدوجہد کرنے والے تھری باشندے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو موت کی آغوش میں جاتے دیکھنے پر مجبور ہیں۔ چھاچھرو، ننگرپارکر ، ڈیپلو سمیت بہت سے چھوٹے چھوٹے دیہات کے غریب باشندے غذائی قلت اور دیگر جان لیواامراض کاشکار ہونے والےبچوں کو سول اسپتال مٹھی تک لانے کےلئے جب اپناسفر شروع کرتے ہیں توان میں سےکچھ ہی زندگی پاتے ہیں۔ متعدد کمزور اورلاغربچے لمبے سفر کی مشکلات سہہ نہیں پاتے تو بہت سے بچے اسپتال پہنچ کر دم توڑ جاتے ہیں۔ رواں ماہ انتقال کرجانے والے بچوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جارہی ہے ۔ یہ تعداد اب 60 کے قریب جا پہنچی ہے۔ سول اسپتال مٹھی میں علاج کے لئے لائے جانے والے بچوں کی یومیہ تعداد تین سو سے تجاویز کرگئی ہے۔ ڈی ایچ او ڈاکٹرعبدالجلیل بھرگڑی کہتے ہیں کہ جو بچے اسپتالوں تک پہنچ پاتے ہیں،، انہیں علاج کی مکمل سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش کرتےہیں۔ تھر کےعوام شکوہ کرتے ہیں کہ حکومتی سطح پر ملنی والی سرکاری امدادی گندم کی تقسیم میں سنگین بے قاعدگیاں ہیں اورانہوں نے الزام لگایا کہ فراہم کی جانے والی گندم میں مٹی کی آمیزش عام بات ہے۔ یہ اور بات ہے کہ تھر کی موجودہ صورتحال میں صوبائی حکومت کے ملکی اورغیرملکی این جی اوز بھی دوردراز علاقوں میں امداد پہنچانے کے دعوے کرتی دکھائی دیتی ہیں۔