03 ستمبر ، 2016
مدیحہ بتول ...انسانوں اور جانوروں کو تو زنجیروں میں جکڑے تو شاید سب نے دیکھا ہومگرپاکستان کے قبائلی علاقے لنڈی کوتل میں بھاری زنجیروں میں جکڑےگھنے اور تناور برگد کے درخت کو بہت کم لوگوں نے دیکھا ہوگا۔یہ درخت ایک صدی سے زائد عرصے سے اسی حالت میں موجود ہے۔
سن 1898 میںلنڈی کوتل چھاؤنی میں واقع اس برگد کے درخت کو ایک برطانوی فوجی افسر کے حکم پر حراست میں لیاگیا تھا۔
ایک صدی اور اٹھارہ سال گزر جانے کے باوجود وہ ایک بے رحم افسر کی دی ہوئی سزا بھگت رہا ہے۔ پولیس افسر نے اسے یہ سزا اپنی جگہ سے ہلنے اورخود کو اس کے حملے سے بچانے کے لیے دی تھی۔کہنے کو تو یہ بات محض مذاق لگتی ہے مگرحقیقت میں ایسا ہی ہے۔
رپورٹس کے مطابق سو سال قبل سلطنت برطانیہ کے دور کی ایک تپتی دوپہر میں جیمز سکویڈ نامی پولیس افسر نےنشے کی حالت میں اس بوڑھے برگد کے درخت کو اپنی جانب آتے دیکھا تو گمان کیا کہ شاید وہ اس پر حملہ آور ہونے والا ہے۔ درخت سے خطرہ محسوس کرنےپر اس نے درخت کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دئیے ۔
بوڑھے درخت پر ایک بورڈ آویزاں دیکھا جا سکتا ہے جس پر ’آئی ایم انڈر اریسٹ‘‘تحریرہے،ساتھ ہی اس افسر کے ظلم کی کہانی بھی درج ہے۔ اکثرلوگ اس قیدی درخت کو دیکھنے کے لیے علاقے کا دورہ کرتے ہیں۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ درخت انگریزوںکےغیر منصفانہ قوانین کی یادگارہے ۔اسے سنبھالنے کا مقصد اپنی آنے والی نسلوں اور دنیا کو برطانوی حکمرانوںکے برصغیر کے لوگوں پر کیے گئے ظلم کے بارے میں آگاہی دینا ہے۔
یہ واقعہ ان دنوں کا ہے جب تمام لوگ پورے ہندوستان میں برطانوی راج کے خلاف جدوجہد کر رہے تھے اورقبائلی علاقوں میں جنگ کا آغاز ہو گیا تھا۔
برٹش آرمی کی جانب سے سخت قوانین جاری کیے جن میں سے ایک ایکٹ’’فرنٹئیر کرائمز ریگولیشن” تھا۔اس ایکٹ کے مطابق حکومت کسی بھی شخص کے جرم کی سزا اس کے خاندان یا قبیلے کو دے سکتی ہے۔