17 اپریل ، 2017
سپریم کورٹ نے اورنج لائن ٹرین کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا، جسٹس عظمت سعید نے نیسپاک کے وکیل شاہد حامد کو مخاطب کر کے ریماکس دیے کہ آپ یہ پراجیکٹ ہم سے زبر دستی نہیں بنواسکتے، میرا خیال ہے آپ اسے رائیونڈ میں ہی بنائیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہے کہ ہمیں تحفظات ہیں کہ کہیں تاریخی عمارتوں کی بنیادیں تو نہیں گرائی جا رہیں۔
میٹرو اورنج لائن ٹرین منصوبے سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5رکنی لارجر بنچ نے کی۔
نیسپاک کے وکیل شاہد حامد نے جواب الجواب میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ لندن میں میٹرو ٹرین 55 فیصد زمین کے اوپر ہے، انڈر گرؤٴانڈ کرنے کا مشورہ دینا آسان ہے لیکن عملی طور پر مشکل کام ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ جہاں ثقافتی ورثہ ہے وہاں ٹرین انڈر گراؤنڈ کر نے میں مزید کتنی لاگت آئے گی؟
نیسپاک کے وکیل شاہد حامدنے جواب دیا منصوبے کی کُل لاگت 3 سے 5 گنا بڑھ جائے گی ۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ تاریخی ورثے کی حفاظت کے لیے پنجاب حکومت کے مختص کردہ 60کروڑ روپے مونگ پھلی کے دانے کے برابر ہیں، یہ رقم بڑھانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ درخواست گزار کی استدعا پر ہمیں منصوبے سے متعلق یونیسکو کی رائے لینے کی کوئی ضرورت نہیں، یونیسکو میں کیسے بھرتیاں ہوتی ہیں ہمیں سب پتہ ہے، جنرل ضیاء الحق نے بھی جنرل یعقوب علی خان کو یونیسکو بھیجا تھا۔
جسٹس اعجاز افضل نے ریماکس دیے کہ بظاہر لگتا ہے کہ نیسپاک کا منصوبے میں کوئی انٹرسٹ ہے، اس کی رائے آزاد نہیں، متنازع ہو سکتی ہے، نیسپاک کی رپورٹ میں تاریخی ورثے کی باریک بینی سے مانیٹرنگ اور جانچ ہی نہیں کی گئی۔
عدالت نے سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔