ناراض بیوی کو منانے کیلئے معافی مانگنے کا انوکھا طریقہ

ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے ٹورس کا کہنا ہے کہ اس نے اپنی بیوی کے اعتماد کو دوبارہ سے جیتنے کیلئے یہ طریقہ اختیار کیا— فوٹو : انسٹاگرام اکاونٹ سک کیٹ

 اگر کسی وجہ سے شریک حیات میں سے کوئی ایک ناراض ہو جائے تو پھر اسے کیسے منایا جائے۔ہاتھ جوڑے جائیں ، قسمیں کھائی جائیں یا صرف معافی مانگ کر اعتراف کر لیا جائے۔ اب اگلا سوال کہ معافی اور غلطی کا اعتراف کر بھی لیا جائے تو کس شکل میں؟

ایسا ہی کچھ انوکھا کیا ہیوسٹن ، ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے جوز ایل ٹورس نامی شخص نے۔اپنی شریک حیات کا بھروسہ دوبارہ سے قائم کرنے کیلئے ٹورس نے اپنی چھاتی پر مستقل طور پر معافی اور اعتراف نامہ گدوالیا۔

ٹورس کا کہنا ہے کہ ایسا اس نے اپنی بیوی کے اعتماد کو دوبارہ سے جیتنے کیلئے کیا ہے۔وہ اپنی شادی شدہ زندگی بہت تکلیف دہ ہو جانے پر شرمندہ ہئ۔ معافی نامے میں ٹورس نے اپنے جھوٹے اور دوغلے ہونے کا اعتراف بھی کیا ہے۔

اب ٹورس نے بیوی کو منانے کیلئے غلط طریقہ اختیار کیا یا صحیح یہ ایک الگ بحث ہے لیکن ٹورس کی گُدی ہوئی چھاتی کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد سے ایک الگ بحث چھڑ گئی ہے۔یہ بحث ہے درست املے اور ہجوں کی۔

گدائی کرنے والا آرٹسٹ املے اور ہجوں کا ماہر نہیں تھا اسی وجہ سے انٹرنیٹ پر کئی لوگوں نے تحریر میں غلطیوں کی نشاندہی  اس آرٹسٹ کے انسٹا گرام اکاونٹ 'ٹیٹوز بائی جارج ' پر بھی کی ہے۔جیسے کہ deceiver اور disrespectful کا املا۔

جواب میں آرٹسٹ نے  اپنا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ انگریزی ان کی مادری زبان نہیں ہے اور تحریر کی درستگی کیلئے وہ اپنے کلائنٹ سے ایک سے زائد مرتبہ چیک کرواتے ہیں۔

آرٹسٹ کے مطابق اپنے کلائنٹ کی چھاتی پر گدائی کرنے سے پہلے کئی مرتبہ پوچھا تھا کہ واقعی وہ یہ کروانا چاہتا ہے یا اس کے بارے میں ایک بار اور سوچنا چاہے گا لیکن اس کا کلائنٹ اس کام کیلئے ذہنی طور پر تیار ہو کر آیا تھا۔

انسٹا گرام پر جاری ہونے والی گُدی ہوئی چھاتی کی یہ تصویر فوری طور پر سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارمز پر بھی وائرل ہوگئی۔

ابھی تک یہ سامنے نہیں آسکا کہ یہ گدی ہوئی تحریر دیکھنے اور پڑھنے کے بعد ٹوررس کی بیوی کا کیا رد عمل تھا، آیا اعتماد بحال ہوا یا اس سے مزید کسی گڑبڑ کا رستہ کھل گیا۔

کچھ لوگوں کا تو یہ خیال ہے کہ اگر ٹورس اتنا سب کچھ کرنے کے بجائے اپنی بیوی کو جی بھر کر شاپنگ ہی کروادیتا تو شاید یہ معاملہ آسانی سے حل ہو سکتا تھا۔