'خواہش ہے چیف الیکشن کمشنرکا معاملہ پارلیمنٹ میں حل ہو لیکن حکومت نہیں چاہتی'

اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے کنوینر اکرم درانی کا کہنا ہے کہ ہماری کوشش اور خواہش ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا معاملہ  پارلیمنٹ میں ہی حل ہو لیکن حکومت اس معاملے کو حل نہیں کر نا چاہتی۔

اسلام اباد میں اپوزیشن  کی 9 جماعتوں کی نمائندہ رہبرکمیٹی کا اجلاس  کنوینر اکرم درانی کی زیر صدارت ہوا۔

اجلاس میں چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے 2 ممبران کی تقرری کا معاملہ زیر غور آیا۔

 اجلاس کے بعد اکرم درانی نے میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ اپوزیشن کے حکومت سے مذاکرات چل رہے ہیں لیکن حکومت اس مسئلے کو حل نہیں کرنا چاہتی ، اس کے پاس یہ آخری موقع ہے ، معاملہ حل کر لے۔

اکرم درانی کا کہنا تھا کہ گزشتہ عام انتخابات میں الیکشن کمیشن اپنا اعتماد کھو چکا ہے، ہم یہ اعتماد بحال کرنا چاہتے ہیں اور اچھی شہرت کے لوگوں کو الیکشن کمیشن میں لانا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ اب ایسے لوگ ہوں جن پر کوئی انگلی بھی نہ اٹھا سکے،حکومت نے خود بھی تسلیم کیا ہے کہ جو نام ہم نے دیے ہیں وہ اچھے ہیں۔

حکومت نے صدر سے غیر آئینی کام کرایا، احسن اقبال

اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے جنرل سیکریٹری احسن اقبال کا کہنا تھا کہ حکومت نے اپنے ہی صدر سےالیکشن کمیشن کے 2 ممبران کی تقرری کے لیے غیر آئینی کام کرایا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پر بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ جب چیف الیکشن کمشنر کی ریٹائرمنٹ کا پتہ تھا تو حکومت نے اپوزیشن کے ساتھ بروقت مشاورت کیوں نہیں کی۔

واضح رہے کہ چیف الیکشن کمشنر سردار رضا محمد خان مدت ملازمت 6 دسمبر کو پوری ہونے کے بعد ریٹائر ہوگئے ہیں اور اب پنجاب کے سینیئر ممبر جسٹس (ر) الطاف ابراہیم قریشی قائم مقام چیف الیکشن کمشنر ہیں۔

آئینی طور پر چیف الیکشن کمشنر کی تقرری 45 روز میں ہونا ضروری ہے تاہم حکومت اور متحدہ اپوزیشن میں چیف الیکشن کمشنر اور دیگر دو ارکان کے معاملے پر ڈیڈلاک ہے۔

متحدہ اپوزیشن نے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے جبکہ 5 دسمبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے 2 ارکان کی تقرری کے لیے 10 روز کی مہلت دی تھی۔

مزید خبریں :