26 دسمبر ، 2019
مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ گھٹیا سیاسی انتقام کامیاب نہیں ہوگا، ان کے خلاف جھوٹا اور بے بنیاد مقدمہ درج کیا گیا۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی رانا ثناءاللہ منشیات برآمدگی کیس میں ضمانت اور رہائی کے بعد فیصل آباد پہنچ گئے۔
فیصل آباد میں میڈیا سے گفتگو میں رانا ثناء اللہ کاکہنا تھاکہ ان کے خلاف جھوٹا اور بے بنیاد مقدمہ بنایاگیا، افغانستان سے لاہور تک پھیلے نیٹ ورک کے دیگر کارندے کیوں نہیں پکڑے گئے؟ اللہ کوگواہ بناکرکہتاہوں کہ ایک مرتبہ بھی ہیروئن کا نشہ نہیں کیا۔
رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے وقت کی ویڈیو پیش کیوں نہیں گئی؟ میرے ساتھ تفتیشی افسر کی گفتگو کی ویڈیو بھی کیوں نہیں پیش کی گئی؟
سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاملے کی جوڈیشل انکوائری کروائیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میں قومی اسمبلی میں اپنی جماعت اور اپنے لیڈر میاں نوازشریف کے ساتھ کھڑا ہوں، اس قسم کے حربے اور سیاسی انتقام کامیاب نہیں ہوگا اور نہ ہم ان ہتھکنڈوں سے رکیں گے۔
جیو نیوز کے پروگرام 'آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ' میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناءاللہ کا کہنا تھا کہ جس دن گرفتارہوا اُس دن اُن ممبران صوبائی اسمبلی کواجلاس میں بلایا تھا جنہوں نے عمران خان سے ملاقات کی تھی۔
رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ ٹول پلازہ کراس کیا تواے این ایف کے 100 کے قریب اہل کارکھڑے تھے،جو مجھے تھانے لے گئے،جس دن گرفتارکیا گیا اس پوری رات اے این ایف نے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی،پوچھا کیا بات ہےتوکہا گیا کہ اوپرسے حکم ہے۔
ن لیگی رہنما کا مزید کہنا تھا کہ اگلے دن مجھے عدالت میں پیش کیا گیا اور15 کلوہیروئن میرے اوپرڈال دی، بیان لینا تودورکی بات مجھ سے توکسی نے بات تک نہیں کی،تفتیشی افسرنے آج تک مجھ سےبات تک نہیں کی،ہیروئن بھی ان کےگھرکی اورگواہ بھی ان کے اپنے گھرکے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میں جیل میں فرش پرسوتا تھا اور مجھے کوئی سہولت نہیں دی گئی، 6 ماہ میں اپنی فیملی کےعلاوہ کسی سے ملاقات نہیں ہوئی۔
خیال رہے کہ منشیات برآمدگی کیس میں گرفتار سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کو آج ضمانت پر جیل سے رہا کر دیا گیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے 2 روز قبل رانا ثناء اللہ کی درخواست ضمانت منظور کی تھی جس کا تحریری فیصلہ بھی آج جاری کر دیا گیا ہے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ رانا ثناء اللہ پر منشیات کا نیٹ ورک چلانے کا الزام لگایا مگر کوئی تفتیش نہیں کی گئی ، لگتا ہے کہ تفتیشی ایجنسی کو ملزم کی سرگرمیاں منظر عام پر لانے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ جواز ٹھوس نہیں لیکن متحرک اپوزیشن رہنما ہونے کی بنیاد پر انتقامی کارروائی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ فاضل جج نے فیصلے میں کہا ہے کہ سیاسی بنیاد پر کارروائی کھلا راز ہے۔
دوسری جانب انسداد منشیات فورس (اے این ایف) نے رانا ثناء اللہ کی ضمانت پر رہائی کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں جانے کا اعلان کیا ہے۔
گزشتہ روز وزیر مملکت برائے انسداد منشیات شہریار آفریدی نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایک بار پھر دعویٰ کیا تھا کہ رانا ثناء اللہ کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں جو اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔
شہریار آفریدی کا یہ بھی کہنا تھا کہ عدالت کی جانب سے رانا ثناء اللہ کی ضمانت پر رہائی کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں لیکن رانا ثناء اللہ کے کیس کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔
یاد رہے کہ انسداد منشیات فورس (اے این ایف) نے رانا ثناءاللہ کو 2 جولائی 2019 کو فیصل آباد سے لاہور جاتے ہوئے گرفتار کیا تھا اور اے این ایف نے دعویٰ کیا تھا کہ رانا ثناء کی گاڑی سے بھاری مقدار میں منشیات برآمد کی گئی۔