19 فروری ، 2020
’’یقیناً خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے‘‘۔ (الانفال، آیت 22)
کوئی تعویذ دھاگوں سے بیماریوں کے علاج کا دعویٰ کر رہا ہے، کوئی گٹھلیوں کے سفوف سے دل کی شریانیں کھولنے کا مژدہ سنا رہا ہے، کوئی پھونک مار کر درد ختم کرنے کی گارنٹی دے رہا ہے اور کسی نے رکشے کے پیچھے اشتہار لٹکا رکھا ہے ’کینسر کا شرطیہ علاج ‘!
لوگ بیچارے معصوم ہیں، اَن پڑھ ہیں، مہنگا علاج کروانے کی استطاعت نہیں رکھتے سو کبھی پیر صاحب سے دم کرواتے ہیں اور کبھی کسی نیم حکیم سے جڑی بوٹیاں لے کر استعمال کرتے ہیں، امید انہیں یہ دلائی جاتی ہے کہ کسی جراحی کی ضرورت پڑے گی اور نہ کیمو تھراپی کی، بس یہ نادر دیسی ٹوٹکا استعمال کریں اور کینسر کے موذی مرض سے نجات پائیں۔
مسئلہ مگر یہ نہیں کہ اِس ملک میں جہالت کے خریدار موجود ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ اِس جہالت کو بڑھاوا دینے والے اصل میں پڑھے لکھے ہیں جن پر بھروسہ کرکے لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اِن لوگوں نے کینسر جیسے مرض کے بارے میں ایسی غلط معلومات پھیلا دی ہیں کہ لوگ اب ان پر ایمان کی حد تک یقین کرتے ہیں، رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پو ری کر دی ہے جہاں ہر بیماری کا انٹ شنٹ علاج بغیر کسی حوالے اور تحقیق کے دستیاب ہے۔
کینسر اصل میں ہمارے جنیاتی مادے میں تبدیلی کا نام ہے، ہمارے جسم میں خلیے تقسیم ہوتے رہتے ہیں، اِن خلیوں کی تقسیم ایک خودکار نظام کے تحت ہر دم مانیٹر ہوتی ہے تاکہ یہ تقسیم درست طریقے سے ہوتی رہے، کسی وجہ سے اگر یہ خودکار نظام کام کرنا چھوڑ دے تو خلیے بہت تیزی سے تقسیم ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور انہیں کنٹرول کرنا ممکن نہیں رہتا، اس صورتحال کو کینسر کہتے ہیں۔
ہمیں دیسی ٹوٹکوں، جڑی بوٹیوں اور قدرتی اشیا کے استعمال کے ذریعے شفایاب ہونے کا بہت شوق ہے، یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کیمو تھراپی کے بعد جب بال گرتے ہیں تو سچی بوٹی کے استعمال سے اسے روکا جا سکتا ہے، نوٹ فرما لیں کہ کسی سائنسی تحقیق سے یہ ثابت نہیں ہو سکا بلکہ قدرتی اشیا کا استعمال بعض صورتوں میں ڈاکٹری ادویات کے اثر کو کم بھی کر سکتا ہے۔
آٹھ ماہ پہلے ایک محترم کالم نگار نے انہی صفحات میں لکھا تھا کہ کینسر محض وٹامن B-17کی کمی کا نا م ہے، اگر آپ روزانہ بادام کے 6,7 دانے کھا لیں تو B-17 کی کمی کی بیماری نہیں ہوتی ہے، بادام کھائیے اور کینسر سے محفوظ رہیے۔
اِس کے علاوہ بھی آنجناب نے کینسر کے سیل ختم کرنے کے بہت سے ٹوٹکے بتائے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ’وٹامنB-17نامی کوئی وٹامن موجود نہیں، یہ ایک غلط اصطلاح ہے جوکہ Leatrile کیلئے استعمال کی جاتی ہے جو Amygdalinکی قسم ہے جو کڑوے بادام، خوبانی کے بیج اور میوہ جات میں پایا جانے والا ایک قدرتی جز ہے مگر ان قدرتی اجزا کے بارے میں ہونے والے دعوؤں کا کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں‘۔
کینسر کے بارے میں سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ موبائل فون کا زیادہ استعمال کینسر کا موجب بنتا ہے، اب تک کی تحقیق سے ایسی کوئی بات ثابت نہیں ہو سکی کہ موبائل فون سے خارج اور وصول ہونے والی شعائیں جنیاتی مادے میں تبدیلی کا باعث بنتی ہیں۔
ایک مغالطہ یہ بھی ہے کہ مائیکرو ویو اوون کے استعمال سے کینسر ہو سکتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مائیکرو ویو گیمارے اور ایکس رے کا استعمال نہیں کرتے، اس لیے خوراک کی تابکاری کا سوال نہیں اٹھتا اور نہ اس کی وجہ سے خوراک میں کیمیائی تبدیلیاں ہوتی ہیں۔
ہمیں اِس بات سے بھی ٖڈرایا جاتا ہے کہ پلاسٹک کی بوتلیں اور برتنوں سے کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جبکہ سائنسی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ ان میں سے بعض کیمیائی مادے کھانے میں شامل ہو جاتے ہیں مگر ان کی مقدار انتہائی کم ہوتی ہے جو مضر صحت نہیں سمجھی جاتی۔
ایک غلط فہمی کاسمیٹکس کے حوالے سے بھی دور کر لیں کہ ڈیوڈرنٹ، کریمیں، ٹوتھ پیسٹ، لوشن، میک اپ وغیرہ میں موجود کیمیائی اجزا کینسر کا باعث بن سکتے ہیں، نوٹ فرما لیں کہ سائنسی تحقیق ان مفروضوں کی تصدیق نہیں کرتی لیکن ہمارے ملک میں چونکہ جعلی مصنوعات بنانے پر کوئی روک ٹوک نہیں سو ان چیزوں کے چناؤ میں خیال رکھنا چاہئے کہ یہ بین الاقوامی معیار کے مطابق تیار کی گئی ہوں۔
اسی طرح ذہنی دباؤ یا منفی سوچ کا کینسر سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہو سکا اور وائی فائی کی شعائیں بھی کینسر کا سبب نہیں بنتیں۔ آخری بات کینسر کے ضمن میں یہ جاننے کی ہے کہ یہ کوئی موروثی بیماری نہیں، صرف 5-10%مریض موروثی کینسر کا شکار ہوتے ہیں جبکہ 90-95%لوگ ماحولیاتی عوامل کی وجہ سے کینسر میں مبتلا ہوتے ہیں، مثلاً تمبا کو نوشی کینسر کے امکان میں اضافہ کرتی ہے، موٹاپا اِس کا باعث بن سکتا ہے ،صحت بخش غذا 20میں سے 1کینسر سے بچا سکتی ہے، ایکس رے، گیمارے کینسر کا موجب بن سکتی ہیں، سورج سے خارج ہونے والی الٹرا وائلٹ تابکاری جلد کے کینسر کی بنیادی وجہ ہے، شراب نوشی سے کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، جسمانی طور پر چست رہنے سے کینسر کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے۔
یہ تمام باتیں سائنسی طور پر ثابت شدہ ہیں اور اِن کا علم مجھے جامعہ پنجاب کے قائم کردہ کینسر ریسرچ سینٹر کے ذریعے ہوا جسے چند ماہ پہلے متحرک اور مستعد وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز احمد نے قائم کیا اور ذاتی طور پر اِس میں دلچسپی لی، کینسر بائیلوجسٹ ڈاکٹر نوشین زیدی اِس کی ڈائریکٹر ہیں جنہوں نے اِس شعبے میں پوسٹ ڈاکٹریٹ کر رکھی ہے، کینسر کی تحقیق کے پروجیکٹس اس ادارے نے شروع رکھے ہیں۔
کینسر کی بہت سی قسمیں ایسی ہیں جن کا اگر بروقت علاج شروع ہو جائے تو مریض کی جان بچائی جا سکتی ہے مگر یہ باداموں، کریلوں یا لیموں کے عرق، گٹھلیوں کے سفوف، تعویذ دھاگوں یا کسی پیر کی پھونکوں سے ممکن نہیں۔
خدا کے نیک بندے پہلے خانقاہوں میں ملتے تھے اب لیبارٹریوں میں ملتے ہیں، یہ بندے دن رات تحقیق میں جتے رہتے ہیں تاکہ خلقِ خدا کو بیماریوں سے نجات دلائی جا سکے، یہی وہ اصل صوفی ہیں جو بنی نوع انسان پر احسان کر رہے ہیں، سو آپ اِن اصل صوفیوں سے استفادہ کریں، کسی رکشے کے پیچھے دیے گئے اشتہار یا ٹوٹکے استعمال کرکے اپنے کسی پیارے کی زندگی داؤ پر نہ لگائیں۔