21 جون ، 2020
گزشتہ دنوں بالی وڈ کے نوجوان اداکار سشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی کی خبر کے بعد ایک مرتبہ پھر سے یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ ایسی کیا وجوہات ہیں کہ اس طرح کے کامیاب ترین افراد بھی خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں ہر سال تقریباً 10 لاکھ افراد یعنی ہر 40 سیکنڈ میں ایک شخص خود کشی کرتا ہے اور گزشتہ 45 سال میں خودکشی کے واقعات میں 60 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ 15 سے 29 سال کی عمر کے افراد میں موت کی دوسری بڑی وجہ خودکشی ہی ہے۔
اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ خودکشی کی بنیادی وجہ ڈپریشن یعنی ذہنی تناؤ ہے۔
ماہرِ نفسیات ڈاکٹر شانزہ رفیق 4 سال سے ڈپریشن (ذہنی تناؤ) اور نفسیاتی امراض میں مبتلا لوگوں کو آن لائن کونسلنگ فراہم کرتی ہیں۔
ڈاکٹر شانزہ رفیق کا کہنا ہے کہ کسی بھی شخص کے ڈپریشن میں مبتلا ہونے کی کوئی ایک وجہ نہیں ہوسکتی۔ "مالی مسائل، تعلیمی مشکلات، خاندانی الجھنیں یا دیگر وجوہات کسی بھی مرد یا خاتون کو ڈپریشن میں مبتلا کر سکتی ہیں جو کہ آگے جا کر انہیں خودکشی کرنے تک مجبور کردیتی ہیں"۔
اگرچہ ڈبلیو ایچ او کے اعداد شمار کے مطابق پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں خودکشی کا تناسب کم باقی دنیا کی نسبت کم ہے۔
ڈبلیو ایچ او کی خودکشی کے موضوع پر ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2012 میں 13 ہزار افراد نے خودکشی کی جب کہ 2016 میں ساڑھے 5 ہزار افراد نے خود اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔
ڈپریشن کی وجہ؟
ڈاکٹر شانزہ رفیق کا کہنا ہے کہ ڈپریشن میں مبتلا ہونے کی ایک وجہ والدین کے آپس میں تعلقات بھی ہو سکتے ہیں یعنی اگر کسی بچے کے والدین آپس میں لڑتے ہیں یا وہ اپنے بچوں پر سختی اور ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوں گے تو یہ بھی انہیں (بچوں کو) نفسیاتی مسائل کی طرف لے جا سکتا ہیں۔
ڈاکٹر شانزہ کے مطابق ڈپریشن کا تعلق کسی خاص جنس سے نہیں ہے اور ان کے پاس آن لائن کونسلنگ کے لیے جتنی تعداد میں لڑکیاں آتی ہیں، اُتنی ہی تعداد میں لڑکے بھی ان کے پاس ذہنی مسائل کا علاج کروانے کی غرض سے آتے ہیں۔
شانزہ رفیق کا کہنا ہے کہ نفسیاتی مسائل کی بہت سی اقسام ہوتی ہیں، یہ کسی بھی عمر سے تعلق رکھنے والے فرد کو ہو سکتی ہے، اگر کوئی شخص ڈپریشن کا شکار ہے تو وہ بہت تنہا محسوس کرے گا اور بے چینی یا اضطراب کی کیفیت میں اسے دورے پڑ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر بچپن سے ہی آپ کو کسی بچے کے رویے میں فرق نظر آئے تو اس کا ہرگز مذاق نہ اُڑائیں یا یہ کہہ کر اس بات کو نہ ٹالیں کے یہ بڑا ہو کر ٹھیک ہوجائے گا بلکہ آپ اگر بچوں میں ایسی تبدیلیاں دیکھیں جو ایک عام انسان سے مختلف ہیں (مثلاً وہ کسی سے دوستی نہیں کرتا، غصہ زیادہ کرتا ہے یا بولتا نہیں ہے وغیرہ وغیرہ) تو ان سے بات چیت کریں اور انہیں اعتماد میں لیں۔
ڈاکٹر شانزہ رفیق کا کہنا ہے کہ ڈپریشن اور نفسیاتی امراض کے لیے دوائیں صرف اور صرف علامات کو دیکھ کر دی جاتی ہیں جو کہ وقتی طور پر انسان کو سکون پہنچا سکتی ہیں، ڈپریشن میں مبتلا کسی شخص کو دوا سے وقتی فائدہ ہو بھی جائے تو بعد میں اگر اس کی زندگی میں دوبارہ کوئی حادثہ ہوجائے تو وہ پھر ڈپریشن کا شکار ہو سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ نفسیاتی امراض پر کونسلنگ کے ذریعے ہی قابو پایا جا سکتا ہے، ڈپریشن اور ذہنی امراض میں مبتلا شخص کو سماجی مجبوریوں اور لوگوں کی باتوں کی پروا کیے بغیر ماہرین نفسیات کی مدد لینی چاہیے ضروری ہے اور یہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعے وہ اس کا مقابلہ کر سکتا ہے۔
ہمیں سب سے پہلے اپنے رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ڈپریشن چھپانے کی چیز نہیں ہے بلکہ یہ دیگر بیماریوں کی طرح ایک قسم کی بیماری ہے اور اس کا علاج موجود ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کو بھی اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سامنے والا شخص آپ کو اپنا درد یا تکلیف بتاتے ہوئے ہچکچائے نہیں۔
اگر ہم سب نے اپنے رویوں میں ہی تبدیلیاں کرنا شروع کردیں تو ہم ذہنی امراض کو کافی حد تک کم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔