21 اکتوبر ، 2020
کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں واقع مسکن چورنگی کے قریب دھماکے میں زخمی ہونے والے افراد کے علاج سے قبل ان کے اہلخانہ اور رشتے داروں سے رقم کا مطالبہ کرکے نجی اسپتال نے زخمیوں کے لازمی و فوری علاج کے قانون 'امل عمر ایکٹ' کی دھجیاں اڑادیں۔
مسکن چورنگی پر نجی بینک میں ہونے والے دھماکے سے 5 افراد جاں بحق اور 28 زخمی ہوئے۔
زخمیوں کو طوری طبی امداد کے لیے قریبی نجی اسپتال لے جایا گیا لیکن اہل خانہ کی جانب سے یہ شکایات آئی ہیں کہ طبی امداد سے قبل ان سے رقم طلب کی جارہی ہے جو کہ زخمیوں کے لازمی و فوری علاج کے قانون 'سندھ اِنجرڈ پرسنز کمپلسری میڈیکل ٹریٹمنٹ' (امل عمر ایکٹ) 2019 کی خلاف ورزی ہے۔
بعض زخمیوں کے رشتہ دار میڈیا کے سامنے پھٹ پڑے، ان کا کہنا تھا کہ اسپتال انتظامیہ علاج میں تاخیرکررہی ہے اور پہلے رقم جمع کرانے کاکہا جارہا ہے، ایک زخمی کے اہلخانہ کاکہنا تھا کہ نجی اسپتال والوں نے آپریشن سے پہلے 50 ہزار روپے جمع کرانے کا کہا اور یہ بھی کہاکہ پہلے پیسے جمع کروائیں پھر علاج ہوگا۔
نجی اسپتال انتظامیہ کے رویےکے خلاف اہل خانہ مشتعل ہوگئے اور ان کی جانب سے احتجاج بھی کیاگیا۔
اس سلسلے میں جیونیوز سے بات کرتے ہوئے صوبائی وزیر سعید غنی نےکہا کہ زخمیوں کی فوری طبی امداد سے متعلق قانون موجود ہے، اسپتال انتظامیہ کو قانون کا پتہ ہونا چاہیے۔
سعید غنی نےکہا کہ محکمہ صحت کے حکام اسپتال پہنچ گئے ہیں اور اس معاملے کو دیکھا جائےگا، دھماکے کے زخمیوں میں سے 18 کو نجی اسپتال، 3کو عباسی شہید اسپتال اور 2 زخمیوں کو جناح اسپتال منتقل کیاگیا ہے۔
خیال رہے کہ آج صبح ساڑھے 9 بجے کے قریب مسکن چورنگی پر واقع رہائشی عمارت میں دھماکا ہوا جس کی آواز دور دور تک سنی گئی، دھماکے کے نتیجے میں قریبی عمارتوں کے شیشے بھی ٹوٹ گئے،عمارت کے نیچے ایک نجی بینک بھی واقع تھا جب کہ دھماکے کے نتیجے میں بلڈنگ کا حصہ گرنے سے اس کے نیچے کھڑی گاڑیاں بھی ملبے میں دب گئیں، دھماکے میں 5 افراد جاں بحق اور 28 زخمی ہوئے ہیں۔
ابتدائی رپورٹ کے مطابق بم ڈسپوزل اسکواڈکاکہنا ہےکہ مسکن چورنگی میں ہونے والا دھماکا قدرتی گیس لیکیج سے ہوا ہے اور جائے وقوع سے کسی قسم کا کوئی بارودی مواد برآمد نہیں ہوا جب کہ دوسری جانب ترجمان سوئی سدرن نے دعویٰ کیا ہےکہ مسکن چورنگی پر ہونے والا دھماکا گیس لیکیج سے نہیں ہوا۔
خیال رہے کہ 13 اگست 2018 کی شب کراچی کے علاقے ڈیفنس موڑ پر پولیس مقابلے کے دوران پولیس کی فائرنگ سے جائے وقوع پر موجود ایک گاڑی کی پچھلی نشست پر بیٹھی 10 سالہ بچی امل بھی جاں بحق ہوگئی تھی۔
بچی کے والدین کا مؤقف تھا کہ اسپتال انتظامیہ نے بچی کو وقت پر طبی امداد نہیں دی تھی، جس کی وجہ سے وہ دم توڑ گئی،اس واقعے کا اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے نوٹس لیا تھا۔
بعدازاں سندھ اسمبلی نے 'سندھ اِنجرڈ پرسنز کمپلسری میڈیکل ٹریٹمنٹ' (امل عمر ایکٹ) 2019 کا قانون منظور کیا تھا جسے جاں بحق بچی کے نام سے منسوب کیا گیا تھا۔