02 فروری ، 2022
اسلام آباد: جس احتساب عدالت کی جانب سے اپنے فیصلے میں یہ کہنا کہ میر شکیل الرحمان کیس میں شواہد نام کی کوئی چیز پیش نہیں کی گئی، نیب اور عدلیہ کیخلاف ایک چارج شیٹ ہے۔
ٹرائل کورٹ کے فیصلے نے نیب کو بے نقاب کر دیا ہے جس نے ملک کے سب سے بڑے میڈیا ہاؤس (جنگ گروپ) کے ایڈیٹر انچیف کے خلاف جعلی کیس بنا کر انہیں ہدف بنایا۔
عدلیہ کے معاملے میں دیکھیں تو اُسے اس بات کا فیصلہ کرنے میں دو سال لگ گئے کہ یہ تو کوئی کیس ہی نہیں اور اس طرح میر شکیل الرحمان نے 8؍ ماہ جیل کاٹی اور ذہنی اذیت الگ برداشت کی۔
میر شکیل الرحمان کے کیس کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر دیکھنا چاہیے کہ کس طرح نیب کی غلط کاریوں کو دور کیا جا سکتا ہے اور ساتھ ہی نیب کو جگانے کے لیے بھی کہ وہ نیب کے دائر کردہ کرپشن کیس میں کسی بھی معصوم کو ایک دن کے لیے بھی جیل میں نہ رکھنے دے۔
عدلیہ کے اپنے فیصلے میں کہا جا چکا ہے کہ نیب کو سیاسی جوڑ توڑ اور ہدف بنانے کیلئے استعمال کیا گیا ہے۔ احتساب عدالت کے جج نے میر شکیل الرحمان کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ کرپشن یا اختیارات کے غلط استعمال کے شواہد نہیں ملے اور یہ بات استغاثہ نے ثابت کی ہے۔
ایسا بھی کوئی الزام نہیں کہ کسی نے غیر قانونی طور پر کوئی فائدہ اٹھایا ہے یا پھر قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملا، میر شکیل الرحمان نے دیگر نے کسی طرح کا فوجداری نوعیت کا جرم بھی نہیں کیا۔
لہٰذا، صرف قیاس آرائیوں اور اندازوں کی بنیاد پر نیب نے میر شکیل الرحمان کو گرفتار کیا اور انہیں آٹھ ماہ تک جیل میں رکھا، ان کیخلاف ریفرنس دائر کیا، دو سال تک مختلف عدالتوں میں گھسیٹا اور اب یہ تمام الزامات صرف قیاس آرائیاں اور اندازے ثابت ہوئے۔ کس نے کیس بنایا، کس نے شکایات کی تصدیق کے مرحلے پر گرفتاری کا حکم دیا، کس نے انہیں جیل میں رکھا اور لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں ضمانت کی مخالفت کی؟ سپریم کورٹ کے سابق جج اور نیب کے چیئرمین جاوید اقبال کو ان سوالوں کا جواب دینا ہوگا۔
بدقسمتی ہے کہ نیب اور اس کے عہدیداروں کے لیے کوئی سزا نہیں حالانکہ ادارہ کئی افراد کے ساتھ کرپشن اور احتساب کے نام پر ناانصافی اور زیادتی کر چکا ہے۔ میر شکیل الرحمان نے جتنے دن جیل میں کاٹے، ان کی بریت اور ضمانت کی دو درخواستیں لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی تھیں۔ دونوں درخواستیں مسترد کرتے ہوئے عدالت نے قرار دیا کہ دونوں درخواستیں بعد کے مرحلے میں دوبارہ جمع کرائیں۔
لاہور ہائی کورٹ نے میر شکیل الرحمان کی بعد از گرفتاری ضمانت کی درخواست 8 جولائی 2020ء کو مسترد کی جس کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ میں 11 ستمبر کو درخواست جمع کرائی کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں ضمانت پر رہا کیا جائے۔
جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ (جسٹس یحیٰ آفریدی اور جسٹس قاضی امین) نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے 9؍ نومبر 2020ء کو میر شکیل الرحمان کی درخواست ضمانت منظور کی۔ انہیں مارچ 2020ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس معاملے میں تاخیر سے انصاف ملنے کا سوال بھی سامنے آتا ہے۔
عدلیہ کو 8 ماہ تک جیل کاٹنے کے بعد میر شکیل الرحمان کو رہا کرنے میں دیر کیوں لگی حالانکہ یہ کیس ہی اندازوں اور قیاس آرائیوں پر قائم کیا گیا تھا۔ میر شکیل الرحمان کو بالآخر بری کرنے اور اس نتیجے پر پہنچنے میں عدالت کو دو سال کیوں لگ گئے کہ کیس جعلی اور بے بنیاد تھا۔
میر شکیل الرحمان پہلے ہی اذیت جھیل چکے ہیں، کئی دوسروں کو بھی یہ تکلیف برداشت کرنا پڑی ہے اور کئی لوگ مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ سوچ کر ہی جھرجھری سے آ جاتی ہے کہ معصوم ہونے کے باوجود مہینوں اور برسوں تک کسی کو جیل میں قید رکھا جائے۔
اس اذیت میں دو گنا اضافہ اس وقت ہو جاتا ہے جب کیس پر بھاری رقم خرچ کی جائے وہ بھی خود کو عدالت سے معصوم ثابت کرانے کیلئے، نیب کے وکلاء نے ملزم کو بھاری مالی نقصان پہنچایا ہے۔ یہ سب کون اور کیسے ختم کرے گا؟ جواب صرف پارلیمنٹ اور عدلیہ ہی دے سکتی ہے!!