اومیکرون سے متاثر 50 فیصد سے زیادہ افراد کو کووڈ کا علم ہی نہیں ہوتا، تحقیق

یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی / فائل فوٹو
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی / فائل فوٹو

کیا آپ کو لگتا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے ڈھائی سال کے دوران آپ کووڈ 19 سے بچنے میں کامیاب رہے ہیں؟

تو اس خیال پر نظرثانی کرلیں۔

یہ دعویٰ ایک نئی طبی تحقیق میں کیا گیا ہے جس کے مطابق کورونا کی بہت زیادہ متعدی قسم اومیکرون سے متاثر زیادہ تر افراد کو بیماری کا علم ہی نہیں ہوتا۔

ایسے افراد میں بیماری کی علامات اتنی معمولی ہوتی ہیں کہ انہیں بیمار ہونے کا علم نہیں ہوتا۔

امریکا کے سیڈرز سینائی میڈیکل سینٹر کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ اومیکرون سے متاثر 56 فیصد افراد کو علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کووڈ 19 کا شکار رہ چکے ہیں۔

محققین نے کہا کہ نتائج سے یہ تصدیق کرنے میں مدد ملتی ہے کہ کووڈ کے بیشتر کیسز کی شناخت نہیں ہوپاتی، کیونکہ علامات کی شدت معمولی ہوتی ہے جبکہ ٹیسٹنگ تک رسائی محدود ہوتی ہے یا لوگ اس کی پروا ہی نہیں کرتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کووڈ 19 سے متاثر ایسے لاعلم افراد وائرس کو آگے پھیلاتے ہیں اورممکنہ طور پر اسی وجہ سے وبا کی شدت میں اب تک کوئی خاص کمی نہیں آسکی۔

اس تحقیق کے لیے طبی عملے اور مریضوں کے خون کے نمونے اکٹھے کیے گئے تھے۔

ڈھائی ہزار افراد کے خون کے نمونے اومیکرون کی لہر پھیلنے سے قبل اور اس کے بعد اکٹھے کیے گئے تھے۔

نمونوں کا تجزیہ کرنے پر معلوم ہوا کہ 210 افراد کورونا کی اومیکرون قسم سے متاثر ہوئے تھے مگر 56 فیصد کو بیماری کا علم ہی نہیں ہوا تھا۔

ان 56 میں سے صرف 10 فیصد کی علامات کی شدت کچھ زیادہ تھی مگر وہ افراد اسے عام نزلہ زکام یا دیگر انفیکشن کا نتیجہ سمجھتے رہے۔

محققین نے زور دیا کہ وبا کو شکست دینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ لوگوں کو یہ علم ہو کہ وہ کووڈ سے متاثر ہوئے ہیں، کیونکہ اگر بیماری کا علم نہ ہو تو وہ وائرس کو آگے پھیلا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے شعور اجاگر کرنے سے کووڈ کے پھیلاؤ میں کمی لانا ممکن ہے۔

ماہرین کے مطابق تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ کووڈ 19 نے مصدقہ کیسز سے زیادہ افراد کو متاثر کیا ہے مگر معمولی علامات کے باعث انہیں علم ہی نہیں ہوسکا۔

انہوں نے کہا کہ بیماری کی سنگین پیچیدگیوں سے بچانے کے لیے ویکسینیشن ضروری ہے اور توقع ہے کہ مستقبل قریب میں نئی ویکسینز زیادہ مؤثر ثابت ہوسکیں گی۔

اس تحقیق کے نتائج جرنل جاما نیٹ ورک اوپن میں شائع ہوئے۔