پاکستان
Time 19 اکتوبر ، 2022

نیب ترامیم کیس: اثاثوں کا آمدن سے محض زائد ہونا کافی نہیں، چیف جسٹس کے ریمارکس

فوٹو:فائل
فوٹو:فائل

نیب قانون میں ترامیم کے خلاف چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی درخواست  کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیےکہ اثاثوں کا  آمدن سے محض زائد ہونا کافی نہیں ، آمدن سے زائد اثاثوں میں کرپشن کا ہونا بھی ضروری ہے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطابندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔ 

دورانِ سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیےکہ تحصیل کونسل چیئرمین اور وائس چیئرمین کے فیصلے بھی مستثنیٰ ہوگئے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیےکہ مالی فائدہ ثابت کیے بغیرکسی فیصلےکو غلط قرار نہیں دیا جاسکتا، بظاہر افسران اور عوامی عہدے داران کو فیصلہ سازی کی آزادی دی گئی ہے۔

 پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے کہا ایسے فیصلہ سازوں سے ہی ماضی میں 8 ارب روپے سے زائد ریکوری ہوئی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا ریکوری عوامی عہدے داروں سے ہوئی تھی؟وکیل خواجہ حارث نے کہا عوامی عہدے داروں کے لیے پیسے پکڑنے والوں سے ریکوری ہوئی تھی۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا ہر سرکاری فیصلے کا کسی نہ کسی طبقے کو فائدہ ہوتا ہی ہے۔

وکیل خواجہ حارث نےکہا کہ جب تک پہنچایا گیا فائدہ غیر قانونی نہ ہو تو کوئی قباحت نہیں، مخصوص افسرکو غیر قانونی فائدہ پہنچانے پرکارروائی نہ ہونا غلط ہے، کسی ریگولیٹری اتھارٹی اور سرکاری کمپنی پر نیب ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ نئی ترامیم کے بعد نیب قانون سے بچ نکلنے پر دوسرے قانون میں پھنس جائےگا، آپ کے دلائل سے ایسا لگتا ہے احتساب صرف نیب کر سکتی ہے، احتساب کے لیے دیگر ادارے بھی موجود ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا اختیارات کے ناجائز استعمال کا جرم کسی دوسرے قانون میں نہیں۔ 

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نیب ترامیم میں نجی افراد کو جرائم سے نکال دیا گیا ہے، آمدن سے زائد اثاثوں کا جرم نیب کا ہے، آمدن سے زائد اثاثوں پر اس وقت کارروائی ہوگی جب کرپشن ثابت ہو۔

چیف جسٹس عمرعطابندیال نے استفسار کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ ترامیم سے کئی جرائم کو ڈیکرمنلائز کر دیا گیا ہے، ریمانڈ کتنا ہو؟ ضمانت کیسے ہوگی؟ ان ترامیم پر آپ کا اعتراض نہیں؟خواجہ حارث نے کہا کہ یہ اچھی ترامیم ہیں، اعتراض نہیں۔

جسٹس منصورعلی شاہ نےسوال کیا کہ نیب ترامیم سے کون سے جرائم حذف کر دیے گئے؟خواجہ حارث نے جواب دیا آمدن سے زائد اثاثوں اور اختیارات کے ناجائز استعمال کےجرائم کو حذف کردیاگیا۔

جسٹس منصورعلی شاہ نےکہاکہ نیب قانون میں آمدن سے زائد اثاثوں کا جرم آج بھی نیب قانون میں موجود ہے، کیا عدالت اب قانون کے ڈیزائن کا جائزہ بھی لےگی؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا نیب ترامیم میں یہی تو ایکسرسائز ہوئی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا پاکستان جیسے ملک میں درست ٹیکس ریٹرنز جمع نہیں کرائے جاتے، اثاثوں کا آمدن سے محض زائد ہونا کافی نہیں، آمدن سے زائد اثاثوں میں کرپشن کا ہونا بھی ضروری ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کل کو کوئی عدالت آ کر کہے کہ آمدن سے زائد اثاثوں پر پھانسی ہونی چاہئیے، جرم ثابت کرنے کا بوجھ کس پر اور کتنا ہوگا؟ یہ بحث عدالت میں نہیں بلکہ قومی اسمبلی میں ہونی چاہئیے، نیب کے قانون کے مطابق ججز کو استثنیٰ نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا بنیادی انسانی حقوق کے بارے میں بھی توازن ہوتا ہے، عام شہری کے حقوق ہیں تو قومی مفاد اور معاشرے کے بھی بنیادی حقوق ہیں، آپ انفرادی افراد کو فائدہ ملنے کو معاشرے کے حقوق کے ساتھ لنک کر رہے ہیں، اگر دیگر فورمز پرکیسز جائیں تو کیا ہو گا؟ ہمیں اس پر معاونت درکار ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے خواجہ حارث سے سوال کیا کہ آپ کو اپنے دلائل مکمل کرنے کے لیے مزید کتنا وقت درکار ہے؟ 

پی ٹی آئی کے وکیل نے کہ میں 4 سماعتوں میں دلائل مکمل کر لوں گا، چیف جسٹس نے کہا کہ نیب قانون عوامی مفاد کے لیے نقصان دہ کیسے ہے؟ یہ سوال اہم ہے۔

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ 50 کروڑ روپے کی کرپشن پر نیب کی کارروائی کی حد کم کر کے 10 کروڑ بھی ہو سکتی ہے، ہمارا مدعا نیب کے قانون کا اطلاق ماضی سے کرنے پر اعتراض ہے۔

بعد ازاں کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی۔

مزید خبریں :