کورونا وائرس کی نئی قسم سائنسدانوں کی توجہ کا مرکز کیوں بنی ہوئی ہے؟

اس نئی قسم کو جولائی 2023 میں دریافت کیا گیا تھا / رائٹرز فوٹو
اس نئی قسم کو جولائی 2023 میں دریافت کیا گیا تھا / رائٹرز فوٹو

کورونا وائرس کی وبا کو ساڑھے 3 سال سے زائد عرصہ ہوگیا ہے مگر یہ وائرس اب بھی خود کو مسلسل بدل رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر چند ماہ بعد اس کی ایک نئی قسم ابھر کر سامنے آتی ہے۔

اب اس کی ایک نئی قسم بی اے 2.86 سائنسدانوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے جسے اب تک کی سب سے زیادہ مختلف قسم قرار دیا جا رہا ہے۔

درحقیقت بی اے 2.86 (اسے آن لائن Pirola کہا جا رہا ہے) کے بارے میں سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ کووڈ 19 کے خلاف جسمانی مدافعتی نظام پر حملہ کرنے کی سب سے زیادہ صلاحیت رکھنے والی قسم ہے۔

دنیا کے مختلف ممالک میں کورونا کی اس نئی قسم کے ابھی چند کیسز ہی رپورٹ ہوئے ہیں مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ بی اے 2.86 کی مانیٹرنگ کی ضرورت ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نئی قسم ویکسینز یا بیماری سے پیدا ہونےو الی مدافعت سے بچنے کے قابل ہے۔

امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن (سی ڈی سی) کی جانب سے جاری ایک نئے تجزیے کے مطابق یہ نئی قسم لوگوں کو دوبارہ کووڈ کا شکار بنا سکتی ہے۔

سی ڈی سی کے مطابق بی اے 2.86 ایسے افراد کو بیمار کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتی ہے جو پہلے بھی کووڈٖ 19 کا سامنا کر چکے ہیں یا کووڈ ویکسینز استعمال کر چکے ہیں۔

امریکی ادارے کا کہنا تھا کہ اس نئی قسم سے لوگوں کے کووڈ سے متاثر ہونے کا امکان وائرس کی دیگر اقسام کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔

یہ قسم کب سب سے پہلے سامنے آئی؟

اسے سب سے پہلے 24 جولائی 2023 کو شناخت کیا گیا تھا اور عالمی ادارہ صحت نے اگست 2023 میں اسے وائرس کی ان اقسام کی فہرست میں شامل کیا تھا جن پر نظر رکھی جا رہی ہے۔

عالمی ادارے کے مطابق اس نئی قسم کے اسپائیک پروٹین میں اومیکرون کے مقابلے میں 30 سے زیادہ تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں۔

اب تک ڈنمارک، جنوبی افریقا، امریکا، برطانیہ اور اسرائیل میں اس کے چند کیسز دریافت ہوئے ہیں۔

اس سے کیسز کی تعداد بڑھنے کا امکان ہے یا نہیں؟

ماہرین کے مطابق یہ بنیادی طور پر اومیکرون کی ہی ایک ذیلی قسم ہے مگر اس میں ہونے والی میوٹیشنز اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھیں۔

سی ڈی سی کے مطابق اس نئی قسم میں ہونے والی تبدیلیوں اومیکرون کے بعد پہلی بار دیکھنے میں آئی ہیں اور اسی سے کووڈ سے بار بار متاثر ہونے کا امکان بڑھا ہے۔

امریکی ادارے نے بتایا کہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ اس نئی قسم سے کتنے زیادہ افراد بیمار ہو سکتے ہیں یا اس سے ہونے والی بیماری کی شدت سنگین ہوگی۔

سی ڈی سی نے بتایا کہ ماضی میں بیماری کے خلاف جسم میں پیدا ہونے والی مدافعت سے کسی حد تک تحفظ ملنے کا امکان ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق آنے والے ہفتوں میں معلوم ہوگا کہ کورونا کی یہ نئی قسم کتنی تیزی سے پھیل سکتی ہے۔

ڈنمارک، برطانیہ، جنوبی افریقا، سوئٹزر لینڈ اور تھائی لینڈ کے سائنسدانوں نے اس کے پھیلاؤ کے کچھ شواہد دریافت کیے ہیں، مگر اب بھی کافی کچھ معلوم نہیں۔

مثال کے طور پر سوئٹزر لینڈ کے ایک قصبے کے نکاسی آب کے نمونوں میں بی اے 2.86 کو دریافت کیا گیا مگر وہاں کسی مریض میں اس کی تصدیق نہیں ہوئی۔

مگر ماہرین کا کہنا تھا کہ نکاسی آب کے نمونوں میں وائرس کی تصدیق سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ نئی قسم اب دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر پھیل رہی ہے، مگر اس سے کسی بڑی عالمی لہر کا سامنا ہوگا یا نہیں، یہ کہنا ابھی ممکن نہیں۔

ماہرین کو خدشہ ہے کہ اس کے کیسز متعدد ممالک میں موجود ہو سکتے ہیں کیونکہ اب زیادہ تر خطوں میں نئے کیسز کی مانیٹرنگ نہیں کی جا رہی۔

کورونا وائرس کے حوالے سے نئی ویکسینز ستمبر میں متعارف کرائے جانے کا امکان ہے جو ایکس بی بی 1.5 نامی قسم کو مدنظر رکھ کر تیار کی گئی ہیں۔

ابھی یہ جانچ پڑتال کی جا رہی ہے کہ یہ نئی ویکسینز کس حد تک بی اے 2.86 کے خلاف مؤثر ثابت ہو سکتی ہیں۔

مگر کچھ ماہرین کو خدشہ ہے کہ بہت زیادہ میوٹیشنز کے باعث یہ نئی قسم نئی ویکسینز سے حاصل ہونے والے تحفظ کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل حالیہ مہینوں میں کورونا کی ای جی 5 نامی قسم زیادہ تیزی سے پھیلنا شروع ہوئی تھی، چین، جنوبی کوریا، جاپان اور امریکا سمیت متعدد ممالک میں اس کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

یہ بنیادی طور پر اومیکرون کی ہی ایک ذیلی قسم ہے۔

ایرس کو سب سے پہلے فروری 2023 میں دریافت کیا گیا تھا اور کچھ ممالک میں اس کے باعث کیسز بڑھنے پر اگست کے شروع میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اسے ویرینٹ آف انٹرسٹ قرار دیا۔

عالمی ادارے نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ نئی قسم ممکنہ طور پر تیزی سے پھیل سکتی ہے اور کووڈ کے خلاف مدافعتی نظام کو حاصل تحفظ پر حملہ آور ہو سکتی ہے۔

ایرس کے اسپائیک پروٹین میں تبدیلیاں ہوئی ہیں جس کے باعث یہ وائرس بیماری کے خلاف ویکسینیشن یا بیمار ہونے کے باعث حاصل ہونے والی مدافعت کو توڑنے کے قابل ہوگیا ہے۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ نئی قسم تیزی سے پھیل رہی ہے تو بیشتر ممالک میں 20 سے 30 فیصد کیسز اس کے شکار افراد میں رپورٹ ہوئے ہیں اور ممکنہ طور پر اس کے باعث کیسز کی شرح مزید بڑھ سکتی ہے۔

مزید خبریں :