14 فروری ، 2014
برسلز… بیلجیئم دنیا کا وہ واحد ملک بن گیا ہے جہاں مختلف امراض میں مبتلابچوں کو بھی موت کے منہ میں دھکیلنے کا قانون منظور کرلیاگیاہے۔ سیاستدانوں کا اقدام اپنی ماہرین طب اور مسلم کمیونٹی حیرت زہ ہے کہ آخر علاج کے طریقے ڈھونڈنے کے بجائے موت کی وادی میں دھکیلنے کی راہ کیوں اپنا لی گئی۔ بیلجیئم کے اراکین پارلیمنٹ ایک ایسی راہ پرچل پڑے ہیں جہاں ناقابل علاج مرض میں مبتلا بچوں کو بھی موت کی وادی میں دھکیلنا کھیل بن سکتاہے۔متنازعہ قانون کے حق میں 86اورمخالفت میں 44ووٹ ڈالے گئے جبکہ 12 اراکین پارلیمنٹ غیرحاضررہے۔ سینیٹ اسے دسمبرہی میں منظوری کرچکی ہے اور محض بادشاہ کے دستخط باقی ہیں۔ مہم چلانے والی خاتون کہتی ہیں کہ وہ خوش ہیں کہ لاعلاج مرض میں مبتلابچے، بڑے ہونے سے پہلے ہی موت کی وادی میں جاسکیں گے۔ بیلجیئم کے مذہبی گروہوں اور ڈاکٹروں کے پینل نے پارلیمنٹ سے درخواست کی تھی کہ ووٹنگ موخرکردی جائے۔ مخالف مہم چلانے والے پروفیسر کہتے ہیں کہ اب دوسرے ملکوں کوخبردارہوجانا چاہیے کیونکہ قانون بن گیاتوپھراسکادائرہ کسی بھی حدتک بڑھایاجاسکتاہے۔ سوئیٹزرلینڈ، جرمنی اورامریکاکی بعض ریاستوں میں لوگوں کوکسی شخص کی مدد سے خودکشی کاحق حاصل ہے۔ نیدرلینڈزمیں 12اورلکسمبرگ میں 18 برس کے بچے اس مقصدکیلئے ڈاکٹروں کی مددبھی لیتے ہیں تاہم بیلجیئم میں عمرکی حدہٹادی گئی ہے اورڈاکٹروں نے بھی تسلیم کیا ہے کہ یہ فیصلہ کرناآسان کام نہیں۔ ناقابل علاج مرض میں مبتلابچے کوموت کے منہ میں دھکیلنے کیلئے یوں توڈاکٹروں،ماہرین نفسیات اوروالدین کی مرضی پوچھی جائے گی مگرسماجی ماہرین کہتے ہیں کہ بچوں سے تنگ والدین کسی بھی حدتک جاسکیں گے اور ایسی کیاقیامت ٹوٹ پڑی کہ امیدکی کرن سمجھے جانے والے بچوں ہی کے بارے میں ناامیدی کو غالب کرلیاجائے۔