13 نومبر ، 2019
کراچی میں اس سال اب تک کم ازکم 34 افراد ڈینگی وائرس سے جاں بحق ہو چکے ہیں اور اس بخار کی وجہ سے شہر کے اسپتالوں میں جگہ کم پڑ گئی ہے جب کہ لوگ ڈینگی میں مبتلا افراد کو پپیتے کے پتوں کا جوس یا جوشاندہ پلا کر بھی اس بیماری کا علاج کر رہے ہیں۔
لوگوں کی اکثریت کا ماننا ہے کہ پپیتے کے پتوں کا جوس یا رس ڈینگی بخار میں مبتلا افراد کے خون میں پلیٹیلیٹس بڑھانے کا سبب بنتا ہے۔
اس صورتحال میں کراچی کے ایک مشہور ریسٹورنٹ نے پپیتے کے پتوں کا جوس نکال کر لوگوں کو مفت میں دینا شروع کر دیا ہے۔
یاد رہے کہ کراچی میں اس سال اب تک کم ازکم 34 افراد اس مہلک بخار کی وجہ سے جاں بحق ہوچکے ہیں۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ پپیتے کے پتوں کے جوس پلانے سے ڈینگی بخار میں کمی یا پلیٹیلیٹس بننے کی کوئی سائنسی توجیح ابھی تک سامنے نہیں آئی۔
لیکن، حیران کن طور پر دی ایشین پیسفک جرنل آف ٹراپیکل بائیو میڈیسن میں 2011 میں چھپنے والی تحقیق کے مطابق پپیتے کے پتوں میں ایسے اجزاء پائے جاتے ہیں جو کہ ڈینگی سے متاثرہ مریضوں کے جسم میں ڈینگی وائرس کی افزائش کو روک دیتے ہیں۔
یہ تحقیق قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد، نیوکلیئر انسٹیٹیوٹ آف فوڈ اینڈ ایگریکلچر ترناب، پی سی ایس آئی آر، پشاور یونیورسٹی اور اور لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور کے ماہرین نے کی اور نا صرف ایشین پیسفک جرنل آف ٹراپیکل بائیو میڈیسن بلکہ کئی امریکی جرائد میں بھی شائع ہوئی ہے۔
پاکستانی بائیو ٹیکنالوجی کے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ پپیتے کے پتوں میں ایسے کئی اجزا موجود ہیں جو کہ ڈینگی سے متاثرہ فرد کے جسم اور خون میں ڈینگی وائرس کی افزائش کو روک دیتے ہیں جس کے نتیجے میں خون میں پلیٹلیٹس کی تعداد بڑھنا شروع ہوجاتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ خیال غلط ہے کہ پپیتے کے پتوں کے رس میں موجود کوئی جزو پلیٹلیٹس کو بڑھاتا ہے بلکہ ان کے مطابق پپیتے کے پتوں کے جوس میں موجود اجزاء ڈینگی وائرس کو خون میں بڑھنے سے روک دیتا ہے جس کی وجہ سے پلیٹیلیٹس دوبارہ بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں۔
اسی طرح انٹرنیشنل جرنل آف ہیلتھ سائنسز اینڈ ریسرچ کے ایک آرٹیکل کے مطابق پپیتے کے پتوں میں شامل اجزاء میں کارپین نامی ایک کیمیکل بھی شامل ہے جو کہ ڈینگی بخار کے خلاف مریضوں میں قوت مدافعت پیدا کرتا ہے۔
تاہم ان تمام ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ پپیتے کے پتوں میں پائے جانے والے اجزاء کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے اور ان سے اس مرض کی دوا بنانے کی کامیاب کوششیں کی جائیں۔
نامور ماہر امراض خون اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سرجن ڈاکٹر ثاقب انصاری کا کہنا ہے کہ ڈینگی بخار بہت کم لوگوں کے لیے خطرناک ثابت ہوتا ہے لیکن کچھ افراد درست اور بروقت علاج نہ کروانے کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈینگی بخار کی مریض میں تصدیق ہونے پر کسی بھی بھی ماہر ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیے اور اگر جسم پر سرخ دھبے نمودار ہوں یا منہ اور جسم کے دیگر حصوں سے خون رسنا شروع ہو جائے تو ایسے مریض کو فوری طور پر کسی بڑے اور بہتر اسپتال لے جایا جانا چاہیے۔