22 اپریل ، 2020
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا ہے کہ انہوں نے پاور سیکٹر میں ہونے والی تحقیقات کی رپورٹ پڑھی ہے جسے پڑھ کر وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مافیاز نے ملک کے ساتھ زیادتی نہیں بلکہ اجتماعی زیادتی کی ہے۔
جیونیوزکے پروگرام 'کیپٹل ٹاک' میں میزبان حامدمیر کو خصوصی انٹرویو میں صدر مملکت عارف علوی کا کہنا تھا کہ وہ پاورکمپنیوں کے اضافی منافعے سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ پڑھ کر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ قوم کا ریپ نہیں،گینگ ریپ ہوا ہے۔
صدر عارف علوی نے بتایا کہ تحقیقاتی رپورٹ کی سمری پڑھی ہے، یہ رپورٹ فی الحال یک طرفہ ہے، اس میں اسٹیک ہولڈرز کی رائے آنی باقی ہے، وزیراعظم سے ملاقات میں رپورٹ پر بھی بات ہوئی، میں نے وزیراعظم کوکہا کہ اگریہ رپورٹ صحیح ہے تو مافیاز نے ملک کا ریپ نہیں بلکہ گینگ ریپ کیا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پاور سیکٹر کی تحقیقاتی رپورٹ عام کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان کو پاور سیکٹر کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کی گئی تھی جس میں قومی خزانے کو سالانہ 100 ارب روپے سے زائد نقصان پہنچائے جانے کا انکشاف ہوا تھا۔
وہیں بجلی منافع جات رپورٹ میں بھی جہانگیر ترین گروپ، سلیمان شہباز اور خسرو بختیار کے بھائی کانام شامل ہے۔
صدر مملکت عارف علوی نے کہا کہ علماءکےساتھ طے پانے والے 20 نکاتی فارمولے پر سب کا اجماع ہے اور اس کی خلاف ورزی گناہ کے زمرے میں آئے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کا آن لائن اجلاس فی الحال نہیں بلایا جاسکتا تاہم سماجی فاصلے کے ساتھ پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ دنوں صدر مملکت اور علمائے کرام کے اجلاس میں رمضان میں مساجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی کے حوالے سے 20 نکات پر اتفاق کیا گیا تھا،ان نکات میں کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے احتیاطی تدابیر شامل ہیں۔
صدر عارف علوی کا کہنا تھا کہ اب یہ ذمہ داری صرف آئمہ یا حکومت کی نہیں بلکہ ہر فرد کی ہے کہ وہ ان احتیاطی تدابیر پر عمل کرے۔
صدر مملکت کا کہنا تھا کہ اگر رمضان کے دوران حکومت یہ محسوس کرے کہ ان تدابیر پر عمل نہیں ہو رہا یا متاثرین کی تعداد برھ گئی ہے تو حکومت دوسرے شعبوں کی طرح مساجد اور امام بارگاہوں کے بارے میں فیصلوں پر نظر ثانی کرے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس بات کا بھی حکومت کو اختیار ہے کہ شدید متاثرہ علاقوں میں وہاں کے احکامات اور پالیسی کو بدل دیا جائے۔