12 ستمبر ، 2020
نیویارک کے ٹوئن ٹاورز اور پینٹاگان سے جہازوں کے ٹکرائے جانے کے واقعے کو آج انیس سال ہو گئے۔ تب افغانستان کے حکمران اور طالبان کے امیرالمومنین ملا محمد عمر کو اندازہ نہیں تھا کہ القاعدہ کیا کرنے جارہی ہے لیکن اسامہ بن لادن اور ان کے قریبی ساتھی جانتے تھے کہ اس کے بعد نہ صرف امریکہ افغانستان میں آئے گا بلکہ پوری دنیا بدل جائے گی۔
احمد یحییٰ گدان جو اس وقت القاعدہ کے آڈیو وڈیو سیکشن کے انچارج تھے، نے ایک وڈیو میں واضح کیا کہ اسامہ بن لادن نے تفصیلات چھپا رکھی تھیں لیکن نائن الیون سے کچھ عرصہ قبل اپنے ساتھیوں کو قندھار میں جمع کرکے بتایا تھا کہ وہ امریکہ کے خلاف ایک ایسی کارروائی کرنے والے ہیں کہ اس کے بعد وہ ضرور افغانستان پر حملہ آور ہوگا۔ جیسا کہ اسامہ بن لادن نے سوچا تھا، ویسا ہی ہوا۔ نائن الیون کے واقعات نے پوری دنیا یوں بدل دی لیکن سب سے زیادہ متاثر افغانستان اور پاکستان ہوئے۔
امریکہ، پاکستان سے دور جاکر بھارت کا اسٹرٹیجک اتحادی بننے والا تھا لیکن نائن الیون کی وجہ سے امریکہ کو ایک بار پھر کچھ وقت کے لئے پاکستان سے رجوع کرنا پڑا تاہم اس کا فائدہ پاکستان کو نہیں بلکہ پرویز مشرف کی ذات کو ہوا، اُن کا اقتدار طویل ہو گیا۔ دوسرا نقصان پاکستان کو دہشت گردی کی صورت میں ہوا جس کے نتیجے میں ستر ہزار سے زائد پاکستانی لقمہ اجل بنے۔ جنرل مشرف نے امریکہ کا ساتھ دے کر پاکستان کے اندر جہادیوں اور القاعدہ جیسی تنظیموں کو برہم کیا لیکن دوسری طرف امریکہ اور افغان حکومت کا اعتماد بھی پوری طرح حاصل نہ کرسکے۔
جب افغانستان کو سنبھالے بغیر امریکہ عراق میں جا گھسا تو ایران سمیت علاقے کے ممالک عدم تحفظ کا شکار ہوگئے۔ امریکہ نے جب پاکستان کے تحفظات کے باوجود بھارت کو افغانستان میں جگہ دی تو جواب میں پرویز مشرف نے بھی افغان طالبان سے متعلق پالیسی بدل دی جس کی وجہ سے پاکستان پر ڈبل گیم کا الزام لگنے لگا۔
اسامہ بن لادن کے پاکستان سے برآمد ہونے کے واقعہ نے تو پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کرکے رکھ دیا۔ دوسری طرف افغان پہلے سے دو دہائیوں سے جنگ کا شکار رہے تھے، نائن الیون کے بعد انہیں ایک اور تباہ کن جنگ کا سامنا کرنا پڑا جسے آج انیس سال پورے ہوگئے۔ آج انیس سال بعد بالآخر امریکہ اور طالبان کی ڈیل ہو گئی جسے طالبان اپنی جیت قرار دے رہے ہیں اور امریکی اپنی لیکن حقیقت میں دونوں اپنی اپنی جگہ ہار گئے ہیں اور دونوں اپنے اپنے موقف سے پسپا ہو گئے ہیں۔
تب امریکی طالبان سے بات کرنے کو تیار نہیں تھے اور ان کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر مصر تھے لیکن انیس سال تک لاکھوں انسانوں کو مروانے اور اربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد طالبان کے وجود کو تسلیم کرکے امریکہ نے ان کے ساتھ مذاکرات کئے۔
دوسری طرف اس وقت طالبان القاعدہ سے تعلق توڑنے پر تیار نہیں تھے لیکن آج انہوں نے امریکہ کو تحریری ضمانت دے دی کہ وہ القاعدہ سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے لیکن امریکہ اور طالبان کی ڈیل کے باوجود افغانستان میں امن اب بھی نہیں آیا۔
امریکہ اور طالبان کی جنگ ختم ہوئی لیکن بین الافغان جنگ بدستور جاری ہے تاہم خوش آئند امر یہ ہے کہ انیس سال بعد افغان حکومت اور طالبان ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرکے کل سے قطر میں مذاکرات کا آغاز کررہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ فریقین کے موقف میں بعدالمشرقین ہے۔
سردست طالبان کا اصرار یہ ہے کہ ان کی امارت اسلامی بحال کی جائے جس میں وہ افغانستان کے سیاسی نظام میں شامل عناصر کو حصہ دار بنا دیں گے۔ دوسری طرف افغان حکومت کا موقف یہ ہے کہ طالبان کو افغانستان کے آئین کے تحت سیاسی نظام کا حصہ بننا ہوگا۔
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ افغان حکومت درون خانہ امریکہ اور طالبان کی ڈیل پر خوش نہیں ہے لیکن ظاہر ہے کہ وہ امریکہ کے سامنے کھڑی نہیں ہو سکتی تھی۔ افغان حکومت میں ایسے عناصر بھی شامل ہیں جو دل سے طالبان کے ساتھ مفاہمت نہیں چاہتے کیونکہ ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہے کہ طالبان آکر سیاسی نظام میں ان کی جگہ لیں گے۔
اسی طرح ان عناصر کے ذہن میں یہ بات بھی بیٹھی ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ الیکشن ہار گئے تو امریکی افغانستان سے انخلا کا اپنا ارادہ بدل سکتے ہیں چنانچہ وہ تاخیری حربے استعمال کررہے ہیں اور مذاکرات کے دوران بھی ایسی شرائط رکھیں گے کہ جو طالبان کے لئے قابلِ قبول نہ ہوں۔ دوسری طرف طالبان کے ہاں بھی مذاکرت کی کامیابی کے لئے کوئی جلدی نہیں کیونکہ وہاں ایک سوچ یہ پائی جاتی ہے کہ اشرف غنی کی حکومت روز بروز کمزور ہورہی ہے اور کچھ وقت گزرنے کے بعد وہ (طالبان) دوبارہ کابل پر قابض ہوکر ماضی کی طرح کی آئینی قدغنوں سے آزاد اپنی مرضی کی حکومت بناسکیں گے حالانکہ یہ دونوں کی غلط فہمی ہے۔ ان دونوں فریقوں اور افغانستان کا بھلا اسی میں ہے کہ وہ لچک دکھا کر مفاہمت کا راستہ نکا لیں۔
ادھر جوں جوں افغانستان میں طالبان اور افغان حکومت کے مذاکرات کا وقت قریب آرہا تھا توں توں پاکستان کے لئے ٹی ٹی پی کا خطرہ بڑھتا جارہا تھا۔ تحریک طالبان کے مختلف دھڑے دوبارہ اکٹھے ہو گئے اور مفتی نورولی کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ اس کے ساتھ ہی ملک کے مختلف حصوں میں ان کی کارروائیاں بھی ایک بار پھر بڑھنے لگی ہیں۔
پاکستان افغانستان کے قضیے کے سیاسی حل میں تو بھرپور کردار ادا کررہا ہے لیکن بدقسمتی سے ملک کے اندر ٹی ٹی پی کے مسئلے کے سیاسی حل کی طرف کوئی دھیان نہیں دے رہا حالانکہ یہی وقت ہے کہ ٹی ٹی پی اور ہر طرح کے عسکریت پسندوں کے ساتھ قضیے کا سیاسی حل نکالا جائے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر افغان حکومت اورافغان طالبان کو مجبور کیا جائے کہ وہ پاکستان کے ساتھ ٹی ٹی پی کے مسئلے کے حل میں تعاون کریں۔ پاکستانی حکام کو یقین ہے کہ ٹی ٹی پی کو افغان حکومت کی طرف سے سپورٹ مل رہی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ افغان طالبان، ٹی ٹی پی کو اپنا دشمن نہیں سمجھتے بلکہ نظریاتی حوالوں سے ٹی ٹی پی اس کی فرنچائز ہے۔
یوں پاکستان کو جہاں افغان حکومت اور طالبان کے مفاہمتی عمل میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے، وہاں اسے اپنے مسئلے کے دائمی حل کا بھی سوچنا چاہئے اور اس سلسلے میں افغان حکومت اور افغان طالبان سے اسی طرح تعاون حاصل کرنا چاہئےجس طرح کہ پاکستان ان کے ساتھ کررہاہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔