Time 20 فروری ، 2023

علی جاوید ہمدانی کی برطرفی: سوئی ناردرن مکمل تباہی سے بچ گیا

علی جاوید ہمدانی کی برطرفی: سوئی ناردرن مکمل تباہی سے بچ گیا

پاکستان میں گیس کی ترسیل کے لیے قائم دو کمپنیز میں سے ایک یعنی سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت پنجاب اور خیبر پختونخوا میں گیس کی ترسیل کی ذمہ دار ہے۔

 دیگر سرکاری اداروں کی طرح اس ادارے کو بھی اندرونی و بیرونی چیلنجز کا سامنا رہتا تھا خصوصاً پرانے نیٹ ورک کے باعث گنجان آباد علاقوں میں گیس سپلائی ، خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں گیس چوری اور گیس کنکشنز کی فراہمی کے مسائل ہمیشہ ہی رہتے تھے۔

ان تمام مسائل کے باوجود یہ ادارہ ایک مختصر سے عرصے کو چھوڑ کر ہمیشہ منافع بخش ہی رہا۔ سوئی ناردرن کو یہ امتیاز بھی حاصل رہا کہ اس ادارے میں میرٹ پر بھرتیاں اور وقت پر ترقیاں ہوتے رہنے سے ملازمین اور مینجمنٹ کا جذبہ ہمیشہ بلند دیکھا گیا جس کی ایک بڑی وجہ ادارےمیں ہمیشہ مینجمنٹ میں سے ہی ایم ڈی کا انتخاب رہا تھا۔

ادارے میں سے ہی آنے والا ایم ڈی دراصل نچلے گریڈز سے ترقی کرتے کرتے اعلیٰ ترین گریڈ تک پہنچتا تھا اور یوں وہ ادارے کے کلچر اور مسائل سے بخوبی واقف ہوتا نتیجتاً معاملات بہتر انداز میں چلا پاتا۔

2018ء میں جب پاکستان تحریک انصاف وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تو اُس وقت امجد لطیف سوئی ناردرن کی سربراہی کررہے تھے جنہیں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے راتوں رات چلتا کردیا۔ پچھلی حکومتوں میں نامزد ادارتی سربراہان عموماً سیاسی مخاصمت کی نذر ہوجاتے ہیں چنانچہ یہ سمجھا گیا کہ ان کے بعد ادارے میں سے ہی کسی سینیئر ترین افسرکو ایم ڈی کے عہدے پر ترقی دے دی جائے گی تاہم ایسا نہ ہوا۔

اوگرا کی جانب سے علی جاوید ہمدانی کے شروع کردہ منصوبے پر سنگین اعتراضات پر مبنی خط کا عکس
اوگرا کی جانب سے علی جاوید ہمدانی کے شروع کردہ منصوبے پر سنگین اعتراضات پر مبنی خط کا عکس

بتایا گیا کہ سوئی ناردرن کے معاملات کو بہتر انداز سے چلانے کے لیے مارکیٹ سے گیس مینجمنٹ کے شعبے کے ماہر لائے جائیں گے تاکہ وہ سوئی ناردرن کی کارکردگی میں بہتری لاسکیں۔ قرعہ فال علی جاوید ہمدانی نامی نامعلوم فرد کے نام نکلا۔

چونکہ پی ٹی آئی حکومت میں پیراٹروپرز کا نزول کوئی نرالی بات نہیں تھی لہذا یہ سوچ کر خاموشی اختیار کرلی گئی کہ یہ سوئی ناردرن کے حصے کا پیراٹروپر ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے علی جاوید ہمدانی سے متعلق بتایا گیا کہ وہ یو ای ٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد دنیا کی بڑی بڑی کمپنیز میں کامیابی کے جھنڈے گاڑتے رہے ہیں یوں کمپنی میں آمد سے پہلے ہی انتہائی اعلیٰ تاثر قائم کردیا گیا۔ 

ہنی مون پیریڈ میں ہر فرد کی غلطیوں اور خامیوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے لہذا کچھ ایسا ہی ان کے ساتھ بھی ہوا تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مینجمنٹ کو ان کی مہارت اور تجربے کے قصے الف لیلوی داستان معلوم ہونے لگیں۔ حکومتِ وقت نے جس ماہر کو "کمپنی کے معاملات بہتر بنانے " کے لیے بھیجا تھا، اُن سے متعلق انکشاف ہوا کہ سوئی ناردرن میں آنے سے قبل وہ کافی عرصے سے فارغ تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ موصوف کو گیس سیکٹر کا کسی قسم کا تجربہ حاصل نہ تھا۔ صاحب کی قسمت اس لیے جاگی تھی کہ وہ نہ صرف ایچی سن کالج کے تعلیم یافتہ تھے بلکہ شوکت خانم اسپتال کے فنڈ ریزر بھی رہے تھے۔ وزیراعظم عمران خان کو یہی دو کوالٹی شاید بھا گئیں اور صاحب کو ایم ڈی سوئی ناردرن تعینات کرنے کا حکم صادر کردیا۔

علی جاوید ہمدانی سوئی ناردرن میں لائے جانے سے قبل ڈیفنس کراچی میں رہائش پذیر تھے چنانچہ ہر ہفتے گھر جانا انہیں پسند تھا مگر وہ بھی کمپنی کے خرچے پر۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عہدہ سنبھالنے سے تقریباً دو سال کے عرصے میں ہمدانی صاحب نے کمپنی کے خرچے پر کراچی کے 51 نجی نوعیت کے دورے کیے ۔

موصوف نےکراچی دورے کے لیے انوکھی ترکیب ایجاد کر رکھی تھے۔ ہر دورے پر ہمدانی صاحب کمپنی کے درجنوں افسران کو کراچی لے جاتے تاکہ دورے کو سرکاری شکل دی جاسکے۔ ان افسران کے لیے ہوائی ٹکٹس اور فائیو اسٹار ہوٹلز میں قیام پر اس عرصے میں لاکھوں روپے خرچ کیے گئے۔ قواعد کے مطابق ایم ڈی کو دو گاڑیاں رکھنے کا استحقاق ہے تاہم علی ہمدانی نے بیک وقت سات گاڑیاں رکھی ہوئی تھیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالتے ہی سادگی مہم کا نعرہ لگایا ۔ ملکی حالات کے سبب ادارے کا بورڈ آف ڈائریکٹرز بھی اخراجات میں کمی پر زور دیتا رہا تاہم ایم ڈی صاحب کی تمام تر دلچسپی لینڈ کروزر اور فورچیونر خریدنے پر مرکوز رہی۔ انٹرنل آڈٹ کی رپورٹس میں بھی ایم ڈی کی طرف اختیارات کے بدترین غلط استعمال کے اعتراضات اٹھائے گئے۔

سوئی ناردرن کی سینیئر مینجمنٹ میں ایسے تجربہ کار ترین افراد شامل ہیں جن کی قابلیت اور دیانت کو وزارت سے لے کر مختلف وزراء اعظم تک تسلیم کرتے رہے ہیں۔ علی جاوید ہمدانی کی جی حضوری نہ کرنے کے جرم کی پاداش میں قابل اور سینیئر ترین افسران کو او ایس ڈی لگاکر من پسند جونیئر افسران کو اہم امور چلانے پر بٹھادیا گیا۔ان جونیئر افسران کے ساکھ پر پہلے ہی سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔

کمپنی کے ایچ آر مینول کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے علی ہمدانی نے سینئر افسران کو طویل ترین عرصے تک او ایس ڈی بنائے رکھا۔ ایم ڈی کی عدم موجودگی میں قواعد کی رو سے ڈی ایم ڈی کمپنی کے معاملات چلانے کا مجاز ہوتا ہے تاہم حالات اس سطح تک پہنچ چکے تھے کہ علی ہمدانی اپنی غیر موجودگی میں اپنے خاص الخاص یاروں اور جونیئر افسران کو کمپنی کا ذمہ سونپ کر روانہ ہوجاتے۔

 علی ہمدانی کی ذہنی سطح کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سینیئر ترین افسران کو بلیک میل کرنے کے لیے اُن کے خلاف من گھڑت انکوائریز شروع کروادی جاتیں جس میں جونیئر افسران کو انکوائری افسر مقرر کردیا جاتا جس کا مقصد نشانہ بنائے گئے سینیئر افسر کی تضحیک ہوتا۔

علی ہمدانی کی ان بے قاعدگیوں اور ناانصافیوں سے متعلق شکایات بورڈ اور وزارت تک مسلسل جاتی رہیں تاہم دونوں جانب سے خاموشی ہی اختیار رکھی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزارت اور بورڈ دونوں کے ایم ڈی سے تعلقات کشیدہ ہی رہے۔

معاملات نکتہ عروج پر اُس وقت پہنچے جب مختلف منصوبوں کو کہیں زیادہ لاگت پر شروع کیا جانے لگا۔ ایسا ہی ایک متنازع منصوبہ 22 ارب روپے کی لاگت سے شروع کیا جانے والا 270 کلومیٹر طویل بنوں ویسٹ 1 پروجیکٹ اور ولید گیس فیلڈز پروجیکٹ ہے۔ اوگرا نے متعدد مرتبہ اس منصوبے کے لیے طویل روٹ کے انتخاب اور منصوبے کی غیر معمولی حد تک اضافی لاگت پر سنگین اعتراضات بھی اٹھائے۔ اوگرا کا مؤقف رہا کہ سی پی ڈی منزلی سے لائن بچھائے جانے کی صورت میں منصوبے کی طوالت کم ہوجاتی اور خاطر خواہ مالی بچت ہوتی۔

اوگرا کی رائے اور اندرونی جائزے میں یہ بات سامنے آئی کہ داؤد خیل سے سی پی ایف تک کمپنی کے پاس پہلے ہی رائٹ آف وے اور دس کلومیٹر ٹرانسمیشن لائن پہلے ہی موجود ہے جبکہ سی پی ایف لا چ سے بنوں ایسٹ تک 55 کلومیٹر طویل لائن بچھاکر یہ منصوبہ بآسانی مکمل کیا جاسکتا تھا تاہم علی ہمدانی نے اس مقصد کے لیے 270 کلومیٹر لائن بچھانے کا فیصلہ کیا جس کی منطق وہی بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ایف آئی اے نے بھی اس پورے معاملے کی چھان بین شروع کردی ہے۔

سوئی ناردرن گیس کی جانب سے پی ٹی آئی حکومت کے وزیر تجارت عبد الرزاق داؤد کی کمپنی ڈیسکون کو 135 ملین روپے کا بڈ بونڈ بھی بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری کے بغیر دیا گیا تھا۔

یہ وہ چند معاملات ہے جن پر سے اب تک پردہ اٹھا ہے۔ آنے والے دنوں میں جوں جوں تفتیش آگے بڑھے گی تو ہی اندازہ ہوسکے گا کہ علی جاوید ہمدانی اور سوئی ناردرن میں موجود اُن کے خاص کارندوں نے کچھ عرصہ قبل تک اچھی بھلی چلتی کمپنی کی تباہی کا کیا کیا سامان کر رکھا تھا۔

مزید خبریں :