28 ستمبر ، 2023
اب تک پلاسٹک کے ننھے ذرات کو ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی سے لے کر سمندر کی گہرائیوں میں دریافت کیا جاچکا ہے۔
مگر اب پہلی بار سائنسدانوں نے بادلوں میں بھی پلاسٹک کے ذرات کی موجودگی کی تصدیق کی ہے، جہاں وہ موسم پر مختلف طریقوں سے اثرانداز ہو سکتے ہیں۔
یہ انکشاف جاپان میں ہونے والی ایک تحقیق میں سامنے آیا۔
جرنل انوائرمنٹل کیمسٹری لیٹرز میں شائع تحقیق کے لیے ماہرین نے ماؤنٹ فیوجی اور ماؤنٹ Oyama کی چوٹیوں پر جاکر دھند سے پانی کے نمونے جمع کیے۔
اس کے بعد جدید امیجنگ تکنیکس کا استعمال کرکے ان نمونوں کا تجزیہ کیا گیا۔
تحقیقی ٹیم نے پولیمرز کے 9 مختلف اقسام جبکہ ربڑ کی ایک قسم کے پلاسٹک کے ذرات کو ان نمونوں میں دریافت کیا۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ بادلوں کے ہر ایک لیٹر پانی میں 6.7 سے 13.9 پلاسٹک کے ذرات موجود تھے۔
محققین نے بتایا کہ اگر پلاسٹک کی آلودگی کے مسئلے کی فوری روک تھام نہیں کی گئی تو موسمیاتی تبدیلیاں اور ماحولیاتی خطرات حقیقت کا روپ دھار سکتے ہیں جس کے نتیجے میں مستقبل میں ناقابل تلافی ماحولیاتی نقصان ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پلاسٹک کے ذرات جب فضا میں پہنچتے ہیں اور سورج کی روشنی میں موجود الٹرا وائلٹ ریڈی ایشن کا سامنا کرتے ہیں تو اس سے گرین ہاؤس گیسوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں کہ انٹار کٹیکا سے لے کر دنیا کے دور دراز واقع خطوں میں پلاسٹک کے یہ ننھے ذرات کس طرح پہنچتے ہیں کیونکہ اس حوالے سے ابھی تک زیادہ تحقیقی کام نہیں ہوا۔
البتہ جاپانی سائنسدانوں نے کہا کہ یہ پہلی بار ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہوا کے ذریعے پلاسٹک کے ذرات بادلوں کے پانی تک پہنچے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس سے پہلے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ انسان اور جانور بھی ان ذرات کو نگل رہے ہیں اور یہ پھیپھڑوں، خون، دل اور دیگر حصوں تک پہنچ جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سمندر میں بھی کروڑوں پلاسٹک کے ذرات موجود ہیں جو وہاں سے کسی طرح فضا میں پہنچتے ہیں اور موجودہ تحقیق سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ ذرات بادلوں کا لازمی حصہ بن چکے ہیں، جس سے کھانے پینے کی ہر چیز بارش کے باعث آلودہ ہو جاتی ہے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں کہ پلاسٹک کے ننھے ذرات جسم کے اندر جانے سے کن اثرات کا سامنا ہوسکتا ہے ، مگر نئی دریافت سے عندیہ ملتا ہے کہ پلاسٹک کے ذرات کا مسئلہ کتنا بڑا ہے۔