10 اکتوبر ، 2024
کیا آپ بہت مایوس یا اداس رہنے لگے ہیں؟ کیا آپ کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ بلکل بے کار ہیں؟ یا آپ کسی کام پر دھیان نہیں دے پا رہے ہیں؟ اگر آپ ان سوالات کا ہاں میں جواب دیتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ آپ ڈپریشن کا شکار ہوں۔
آ غا خان اسپتال کے ڈپارٹمنٹ آف کمیونٹی ہیلتھ سائنسز سے وابستہ ماہر نفسیات ڈاکٹر فاطمہ بتول نے جیو ڈیجیٹل کو بتایا کہ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں ہر 4 یا 5 میں سے ایک نوجوان ڈپریشن کا شکار نظر آتا ہے، دنیا بھر میں کووڈ کی وبا پھیلنے کے بعد نو عمروں اور نوجوانوں میں ڈپریشن کی شرح میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
ماہرین نفسیات کے مطابق نوجوانوں میں ڈپریشن کی ایک بڑی وجہ والدین کا بچوں سے بڑی بڑی توقعات رکھنا ہے، جسے اگر بچہ پورا نہیں کر پاتا ہے تو وہ ذہنی دباؤ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
آج ذہنی صحت کے عالمی دن کے موقع پر آپ کو بتاتے ہیں کہ کیسے آپ ڈپریشن سے نکل سکتے ہیں۔
سب سے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ ڈپریشن ہے کیا؟
ڈپریشن ایک ذہنی بیماری ہے، ماہر نفسیات کے مطابق اگر ایک شخص میں مایوسی، اداسی یا افسردگی کا احساس 2 یا 3 ہفتے تک نہیں جائے اور وہ مستقل ایسا محسوس کرتا رہے تو اس کا مطلب ہے وہ ڈپریشن کا شکار ہے، یہ بیماری ناصرف دماغ بلکہ جسم کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہے۔
علامات کیا ہیں؟
ڈپریشن سے متاثرہ شخص میں چڑچڑا پن، زیادہ غصہ آنا، نیند متاثر ہونا،کھانے پینے کی عادتوں میں تبدیلی اور یہاں تک کے اپنی زندگی ختم کرنے کے خیالات آنا جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔
کم عمری میں ڈپریشن کی وجوہات کیا ہیں؟
ماہرین نفسیات کے مطابق ایسے کئی عوامل ہیں جن کی وجہ سے نوجوان ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں، والدین کا بچوں سے بڑی بڑی توقعات رکھنا، جسمانی سرگرمیوں کی کمی، غیر صحت مند غذا اور سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال کم عمری میں ہی بچوں میں ذہنی مسائل کےخطرات بڑھا دیتا ہے۔
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ذہنی بیماریوں کے حوالے سے آگاہی کی کمی ہے اور اس بارے میں بات کرنا اسٹگما سمجھا جاتا ہے، ڈپریشن کا شکار شخص کسی دوسرے کو اپنی ذہنی مسائل کے بارے میں بتانے میں جھجھکتا ہے کہ کہیں اس کی بیماری کا مذاق نہ اڑایا جائے یا لوگ اسے پاگل نہ سمجھیں، یہی وجہ ہے کہ ذہنی مسائل مزید شدت اختیار کر جاتے ہیں۔
نوجوانوں کو ڈپریشن کے مرض سے کیسے نکالا جائے؟
ماہر نفسیات نے بتایا کہ انفرادی طور پر ذہنی مرض سے متاثرہ شخص کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ ایسی سرگرمیوں میں مصروف رہے جس سے اسے ذہنی سکون میسر ہو، جیسے اپنے دوست یا گھر والوں سے اپنے دل کی بات کرنا، چہل قدمی کرنا، کسی پارک میں سرسبز ماحول میں تھوڑا وقت گزارنا اور ورزش کرنا جس سے اسے خوشی ملے۔
نوجوانوں میں بڑھتی ذہنی بیماریاں ایک عالمی مسئلہ بن چکی ہیں، جسے کم کرنے میں ہم سب کو آگے آنے ہوگا، بحیثیت ایک اچھا دوست یا خاندان کا فرد بن کر، جو ذہنی مسائل کو سمجھے اور صحیح وقت پر متاثرہ شخص کی مدد کرے۔