14 مارچ ، 2014
نوشہرہ…نوشہرہ کے جلوزئی کیمپ میں غربت اور بے سروسامانی کی زندگی گزارنے والے ایک خاندان سربراہ جلد کے کینسر کا شکار ہو گیا تو اسی خاندان کے دوبچے بھی اسی جان لیوا بیماری کا شکار ہیں۔ جلوزئی کے ان بوسیدہ کیمپوں میں زندگی یوں بھی دشوار تھی۔ دن ہفتوں،مہینوں اورپھرسالوں میں بدل گئے۔ کسی اچھی خبر کے انتظارمیں اس ماں کی آنکھیں پتھراچکی ہیں۔ دس سال قبل جلد کے کینسر نے کمال بی بی کے شوہر کی جان لے لی، اب 15سالہ بیٹی شازمینہ اور 10سالہ شہسوار کو بھی یہی مرض لاحق ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اگر اس بیماری کا بروقت علاج نہ ہو تو جسم کا گوشت ہڈیوں سے الگ ہونا شروع ہو جاتا ہے جو زندگی کے خاتمے کا سبب بنتا ہے۔ بے بس ماں کرے تو کرے کیا۔ کمال بی بی کا کہنا ہے کہ اگر میرے بچے ٹھیک نہیں ہوتے تو یہ مجھ سے پہلے ہی اس دنیا سے چلے جائیں کیونکہ میرے بعد انہیں کون سنبھالے گا، میرا خاوند اسی بیماری سے مر گیا، میں نہیں چاہتی کہ میرے بچوں کے جسم سے بھی ان کا گوشت علیحدہ ہو جائے۔ ہر گزرتا لمحہ شازمینہ کی سانسوں کی ڈوری کمزورکررہاہے۔ شازمینہ کہتی ہے کہ رات کو جب تکلیف ہو تو ماں کو آواز دیتی ہوں، ماں اٹھتی ہے لیکن دوائیاں کہاں ہوتی ہیں، وہ بھی روتی ہے، مجھے کچھ نہیں چاہیئے، بس میری بیماری ٹھیک ہو جائے۔ علاج، مہنگی دوائیاں، بہت دور کی بات ہے۔ سکت ڈاکٹر کے پاس جانے تک کی نہیں۔ گزربسر کیلئے کمال بی بی کو اس کیمپ سے ملنے والا راشن کا آدھا حصہ بیچنا پڑتا ہے۔ جہاں بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی نہیں وہاں مہنگی دوائیاں کہاں سے آئیں گی؟ ایک طرف غربت کی چکی تو دوسری جانب کینسر جیسا موذی مرض، برسوں بیت گئے، مگر یہ بچے آج بھی کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔