Time 19 فروری ، 2023
سائنس و ٹیکنالوجی

اس تصویر نے انٹرنیٹ کی دنیا کو ہمیشہ کیلئے کیسے تبدیل کر دیا؟

یہ تصویر 1972 میں کھینچی گئی تھی / فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا
یہ تصویر 1972 میں کھینچی گئی تھی / فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا

کچھ تصاویر ایسی ہوتی ہیں جو دنیا کو بدل دیتی ہیں اور اوپر جو تصویر آپ دیکھ رہے ہیں اس نے بھی ایسا کیا۔

کم از کم انٹرنیٹ کی دنیا کو اس 5 دہائی پرانی تصویر نے بدل کر رکھ دیا اور اسی کی وجہ سے ہم لاتعداد تصاویر آن لائن شیئر کرنے کے قابل ہوئے۔

1972 میں لینا فورسن (Lena Forsén) نامی خاتون نے ایک جریدے کے لیے پہلی اور آخری بار ماڈلنگ کی اور پھر زندگی میں آگے بڑھ گئیں، جن کے لیے یہ تصویر ماضی کا قصہ بن گئی تھی۔

مگر لینا نے انٹرنیٹ کی دنیا کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا تھا۔

اس جریدے کی اشاعت کے چند ماہ بعد امریکا کی سدرن کیلیفورنیا یونیورسٹی کے سگنل اینڈ امیج پراسیسنگ انسٹیٹیوٹ کے الیکٹریکل انجینئر الیگزینڈر سچواک اور ان کی ٹیم نے کمپیوٹرز کے لیے امیج پراسیسنگ الگورتھمز پر کام شروع کیا۔

انہوں نے امیجنگ لیبارٹریز میں شیئر کی جانے والی مخصوص تصاویر کو ٹیسٹ امیجز کے طور پر استعمال کیا اور ان کے کام کا مقصد یہ تھا کہ ہر لیبارٹری کے لیے یکساں اسٹینڈرڈ کو یقینی بنایا جا سکے۔

یہ تو واضح نہیں کہ کس طرح یہ تصویر ان ماہرین تک پہنچی مگر ایسا مانا جاتا ہے کہ انہیں ایک منی کمپیوٹر میں اسکین کرنے کے لیے ایک نئی تصویر کی ضرورت تھی۔

پرانی ٹیسٹ امیجز انہیں زیادہ پسند نہیں آئی تھیں اور وہ ایک انسانی چہرے کی ایسی تصویر چاہتے تھے جو دیکھنے میں اچھی ہونے کے ساتھ ساتھ دلچسپ محسوس ہو۔

اسی مقصد کے لیے انہوں نے نومبر 1972 میں شائع ہونے والے جریدے کو منتخب کیا اور انہیں لینا کی تصویر مثالی محسوس ہوئی۔

انہوں نے مکمل تصویر کو استعمال کرنے کی بجائے صرف چہرے کو منتخب کیا اور اس پر کام کرنا شروع کر دیا۔

یہ تو واضح نہیں کہ صرف چہرہ کیوں منتخب کیا گیا مگر ممکنہ طور پر ایسا تکنیکی وجہ کے باعث ہوا کیونکہ جس اسکینر کو استعمال کر رہے تھے وہ مخصوص پکسلز والی امیج ہی اسکین کر سکتا تھا۔

یہ تصویر ان کے مقصد کے لیے بہترین ثابت ہوئی اور انہوں نے اسکین کی گئی تصویر اسی طرح کی تحقیق کرنے والے دیگر محققین کو فراہم کیں۔

اسی ٹیم نے جے پیگ (JPEG) امیج فائل فارمیٹ کو تشکیل دیا جو آج بھی عام استعمال ہونے والا سب سے مقبول امیج فارمیٹ ہے اور ایسا لینا کی تصویر سے ممکن ہوا۔

بتدریج یہ تصویر اتنے وسیع پیمانے پر پھیل گئی کہ اس انڈسٹری کے لیے اسٹینڈرڈ بن گئی۔

دنیا بھر کی لیبارٹریز کے لیے لینا کی تصویر طے شدہ معیار کی حیثیت اختیار کر گئی اور آئندہ 2 دہائیوں تک وہ تصویر خاموشی سے پھیلتی گئی، یہاں تک کہ جریدے کو بھی اس کا علم نہیں ہوسکا۔

جب اس جریدے کو علم ہوا تو اس کے پاس رائلٹی کے حصول کا موقع ختم ہو چکا تھا اور مجبوراً اسے تصویر کو تعلیمی اور تحقیقی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دینا پڑی۔

جے پیگ امیج فارمیٹ نے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ میں تصاویر کے استعمال کو بہت آسان بنا دیا اور بہت کم ڈیٹا کے ساتھ کھربوں تصاویر اب تک آن لائن اپ لوڈ ہو چکی ہیں۔

اس تصویر کے فارمیٹ کو کھربوں بار نقل کیا گیا اور وقت کے ساتھ ضروریات کے مطابق اس میں تبدیلی کی گئی۔

جہاں تک لینا کی بات ہے تو انہیں اس تصویر کی مقبولیت کا اندازہ ہی نہیں تھا۔

سوئیڈن میں مقیم یہ خاتون برسوں تک اس بات سے لاعلم رہیں کہ ان کی زندگی کے واحد فوٹو شوٹ نے انٹرنیٹ کی دنیا کو کیسے تبدیل کیا۔

1997 میں ایک امیجنگ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی ایک کانفرنس میں مدعو کیا گیا تو انہیں علم ہوا کہ ان کی تصویر کو کیسے استعمال کیا جا رہا ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت تک لینا نے کبھی انٹرنیٹ کو استعمال ہی نہیں کیا تھا۔

اس کانفرنس سے پہلے بیشتر انجینئرز کو علم ہی نہیں تھا کہ یہ تصویر کسی حقیقی خاتون کی ہے اور وہ اسے فرضی سمجھتے تھے۔

جنوری 2019 میں لینا نے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ اگرچہ انہیں اپنی تصویر پر فخر ہے مگر وہ چاہتی ہیں کہ اسے اب ریٹائر کر دینا چاہیے۔

مزید خبریں :