10 اپریل ، 2019
آپ چھوٹے گوشت والے قصاب سے کبھی بڑا گوشت بنوانے کا تجربہ کریں، کام تو ہوجائے گا لیکن نتیجہ؟ جی ہاں، بوٹیوں اور ہڈیوں کا وہی حال ہوگا جو بڑا گوشت بنانے والے چھوٹے گوشت کا کرے گا، یہی نہیں اگر چکن بنانے والے اور اس سے بڑھ کر مچھلی بنانے والے کو یہ ’مشن‘ دے دیا جائے تو؟
آپ سوچتے رہیے کہ اسٹائل ایوارڈز کا اس سارے مسئلے کا کیا تعلق ہے؟ لیکن یہ بات جاننے کیلئے سب سے پہلے آپ کو ان ایوارڈز پر ہر سال اٹھنے والی انگلیوں اور مچنے والے شور کا جائزہ لینا ہوگا۔
شور، سوالات اور الزامات
کیا لکس والے صرف اپنی مرضی چلاتے ہیں؟ کیا برانڈ ایمبیسڈر کیلئے ایوارڈز اور نامزدگیاں پکی ہوتی ہیں؟ ایوارڈز کی نامزدگیوں کیلئے جیوری سلیکٹ کیوں ہوتی ہے؟ کیا یہ جیوری مکمل ’خود مختار‘ ہوتی ہے؟ ان ایوارڈز کی جیوری ’محدود‘ کیوں تھی؟
کیا نامزد نہ ہونے والوں یا ان کے فینز کا شور مچانا جائز ہے؟ فلم کا معیار اور بزنس اوپر گیا لیکن ایوارڈز کم کیوں ہوئے؟ کیا ریلیز ہونے والی تمام فلمیں مقابلے میں شامل تھیں؟ کون کون سی فلمیں نامزدگیوں کے پہلے راؤنڈ میں آؤٹ ہوئیں؟
نامزدگیوں کیلئے طریقہ کار کیا تھا اور اب ایوارڈز دینے کیلئے کیا ہوگا؟ کیا اتنے شور اور تنقید کے بعد جیوری اور ایوارڈز والے چھپتے پھر رہے ہیں؟ کیا ایوارڈز سے بہت سارا پیسہ بنتا ہے؟ کیا ایوارڈز کروانا واقعی اتنا بڑا درد سر ہے؟ اس سال عام لوگ کون کون سے فلمی ایوارڈز کے ونر کا انتخاب کریں گے؟ کنفیوژن آخر ہے کیا؟ آئیے ملکر معلوم کرتے ہیں۔
کیا لکس اسٹائل ایوارڈز پیسے بنانے کیلئے ہوتا ہے؟
نہیں، سب سے پہلے تو’کامن سینس‘ یہی کہتا ہے کیونکہ ان ایوارڈز سے پیسے بنانے کا تعلق ہوتا تو یہ ایوارڈز کم سے کم دو حصوں میں تو آسانی سے بٹ سکتے تھے؟
فلم کی ’کیٹیگریز‘ بڑھا کر سب کو ’ایڈجسٹ‘ یا ”خوش“ رکھ کر صرف” فلم“ کے ایوارڈز بھی الگ سے منعقد اور آسانی سے بیچے بھی جاسکتے تھے۔
ایوارڈز کرانا ایک درد سر؟
کوئی سے بھی ایوارڈز کی تقریب ہو، اُس رات کا ایونٹ کرانا درد سر تو ہوتا ہے، سپر اسٹار، اداکار، ماڈلز اور شرکاء تو ایک طرف، اپنے فیورٹ ستاروں کو دیکھنے آنے والے فینز بھی بور ہوجاتے ہیں۔
یہ جو ایوارڈز ہم ٹی وی پر دیکھتے ہیں وہ تو کافی ایڈٹ ہو کر سامنے آتا ہے، اس سال بھی تقریباً 30 کیٹگریز ہیں جن کے نامزدگیوں کا اعلان، اس سے پہلے پریزنٹرز کا آنا، ونر کا نام پکارنا، اس کا اسٹیج تک آنا پھر اپنی وکٹری اسپیچ پڑھ کر اپنے ساتھیوں، خاندان، دوستوں اور خود ایوارڈز کا شکریہ کرنے میں اوسطاً 7 منٹ تو لگتے ہونگے۔
اب اگر اِن 7 منٹس 30 سے ضرب کیا جائے تو 210 منٹ یعنی ساڑھے تین گھنٹے کی ”ضرب“ زور سے پڑتی ہے، اسی میں ریڈ کارپیٹ اور اسٹیج پرفارمنس کو مزید جمع کیا جائے گا تو کہانی پانچ سے چھ گھنٹے تک آرام سے چلی جاتی ہے۔
ارے ارے ابھی رکیئے، کسی اسٹار یا مخصوص ٹیم کو اپنی جگہ یا ساتھ بیٹھے ہوئے لوگ اچھے نہیں لگے تو اس وقت بدمزگی ہونے کے چانسز الگ ہیں۔
اسٹائل ایوارڈز کیلئے نامزدگیوں کا طریقہ کار
اسٹائل ایوارڈز کے چاروں مرکزی شعبوں فیشن، میوزک، ٹی وی اور فلم کیلئے الگ الگ بورڈ آف گورنرز ہوتے ہیں جو اِن ایوارڈز کیلئے کیٹگریز اور جیوریز کو فائنل کرتے ہیں۔
ایوارڈز منیجر فرشتے اسلم کے مطابق ہر بورڈ سال بھر کی ریسرچ کے بعد نامزدگیوں کیلئے صرف ”کیٹگریز“ فائنل کرتا ہے، نامزدگیوں سے اس بورڈ کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
خودمختار اور آزاد فلم جیوری متفقہ طور پر فلموں کو شارٹ لسٹ کرتی ہے اور ان کی نامزدگیوں پر غور کرتی ہے، اس سال 12 رکنی ’فلم جیوری‘ کی سربراہی سینئر صحافی، فلمساز، رائٹر، ناقد اور کارا فلم فیسٹول والے حسن زیدی نے کی۔
حسن زیدی نے اپنے ٹوئٹس میں پورے طریقہ کار کو تفصیل سے بیان کرنے کی کوشش کی، اس فلم جیوری میں اداکار، سنسر بورڈ ممبران، ہدایت کار، صحافی، ناقدین جن کے نام عثمان پیرزادہ، نعیم حبیب، حنیف سحر، عاصم رضا، زیبا بختیار، خسرو ممتاز، اختر علی اختر، میرا ہاشمی، سعید شیراز، کامران جاوید اور رافع محمود بھی شامل تھے۔
حسن زیدی کے مطابق اس سال جیوری نے پہلے 25 فلموں پر بات کی جن میں سے پھر 11 فلموں کو شارٹ لسٹ کیا گیا، فلم جیوری نے فلموں کی پانچ کیٹگیریز میں سے صرف چار کی نامزدگیاں فائنل کیں۔
جیوری کے ہر فرد نے بہترین فلم، بہترین اداکار، بہترین اداکارہ اور بہترین ڈائریکٹر کیلئے اپنی اپنی فائنل پانچ نامزدگیوں کو لکھ کر آگے کیا، جیوری کا ہر فرد دوسرے جیوری ممبر کے انتخاب سے لا علم تھا، وہ اب نامزدگیوں کے اعلان کے بعد نتیجہ تو جان گیا ہے لیکن اپنے ساتھی کی پسند، رائے اور فہرست سے اب بھی لا علم ہی رہے گا۔
اسٹائل ایوارڈز کے ’آڈیٹرز‘ نے ان نامزدگیوں کو ’ٹیبلویٹ‘ یا ’کیلکولیٹ‘ کیا جب کہیں جا کر اِن نامزدگیوں کا اعلان ہوا، اس سال نامزدگیوں کے اعلان سے پہلے جیوری کی بیٹھک کی تصویر بھی انسٹاگرام پر ریلیز کی گئی۔
کون سی فلمیں حتمی نامزدگیوں کیلئے اِن اور کونسی آؤٹ ہوئیں؟
اس سال جیوری نے حتمی بیٹھک سے پہلے جن فلموں کو نامزدگیوں کیلئے مشاورت سے” شارٹ لسٹ“ کیا، اُن میں ’جوانی پھر نہیں آنی 2‘، ’پرواز ہے جنون‘، ’طیفا ان ٹربل‘، ’ڈونکی کنگ‘، ’کیک‘، ’موٹر سائیکل گرل‘، ’لوڈ ویڈنگ‘، ’سات دن محبت ان‘، ’پرچی‘، ’وجود‘ اور ’پنکی میم صاحب‘ شامل تھی۔
یعنی ’آزادی‘، ’آزاد‘، ’اللہ یار‘، ’شور شرابہ‘، ’نہ بینڈ نا باراتی‘، ’تین بہادر‘، ’پری‘، ’ٹک ٹاک‘، ’جیک پاٹ‘ اور ’مان جاؤ‘ پر غور کر کے انھیں حتمی بیٹھک سے پہلے ہی سب نے متفق ہو کر آؤٹ کیا۔
فائنل 11 فلموں میں صرف ’وجود‘ اور ’پنکی میم صاحب‘ پر سوال اٹھتا ہے کیونکہ لسٹ میں شامل نہ ہونے والی ’آزادی‘ اور ’آزاد‘ کا باکس آفس اور معیار بھی ان دونوں فلموں جیسا ہی تھا، ہمارے خیال میں اِن چاروں فلموں سے کہیں گنا بہتر ’اللہ یار دی لیجنڈ آف مار خور‘ تھی۔
اس فلم کا معیار بھی اچھا تھا اور بزنس بھی زیادہ، یہ فلم سینما گھروں میں ٹکی بھی کافی زیادہ تھی جب کہ حتمی 11 فلموں میں ’پرچی‘، ’وجود‘ اور ’سات دن محبت اِن‘ ایک بھی نا مزدگی حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔
آزاد اور خود مختار جیوری ’محدود‘ کیوں؟
جیوری سو فیصد آزاد تو تھی لیکن ساتھ ہی بہت محدود بھی، اِن ایوارڈز میں بہترین معاون اداکار، کامیڈین یا ولن اور بہترین نئے اداکار کی کوئی کیٹیگری نہیں تھی تو اُنھوں نے صرف اپنے سامنے کی ’ایکٹنگ‘ کو پیمانہ بنایا اور فیصلہ کیا۔
حسن زیدی کے مطابق جیوری نے باکس آفس یا پاپولر چارٹ سے نہیں بلکہ اپنے اپنے ذہن سے نامزدگیاں اور ان کو نمبرز دیے، اس میں لکس اسٹائل انتظامیہ کی کوئی مداخلت نہیں تھی، اِن سارے نتائج کا دار و مدار جیوری کے ہر فرد کی مرتب ’لسٹ‘ پر تھا۔
حسن زیدی کا کہنا ہے کہ اگر یہ نامزدگیاں صرف بات چیت سے سب کے سامنے فائنل ہوتیں تو شاید اور بہتر ہوتا لیکن اس کیلئے وقت کم اور افراد زیادہ تھے، انھوں نے اس سلسلے میں کارا فیسٹول کی مثال بھی دی لیکن یہ بھی بتایا کہ وہاں جیوری میں شامل افراد کی تعداد کم رکھی جاتی تھی ۔
ایوارڈز میں تنازعات اپنی جگہ لیکن کسی بھی ایوارڈز میں جھگڑے، ناراضیاں یا فیورٹ ازم کے الزامات کوئی روک ہی نہیں سکتا، یہ ویسے ہی ہے جیسے کوئی بھی اپنی شادی کی تقریب میں کارڈ سے لے کر کھانے، وی آئی پی ٹیبل، تصویر اور رخصتی تک کوئی چِک چِک ہونے سے روک کر دکھائے۔
ایوارڈز منیجر فرشتے اسلم کا کہنا ہے کہ ان کے برانڈ کا ایوارڈز کی جیوری پر کوئی پریشر ہوتا ہے نہ کوئی کوٹہ، نہ ہی جیوری سے کسی بھی قسم کی سفارش یا درخواست کی جاتی ہے۔
نامزدگیوں سے لے کر ایوارڈز تک کا ’آڈٹ‘ اُس آڈٹ فرم کے پاس ہے جو آسکرز کی بھی نگرانی کرتی ہے، اگر برانڈ کا کوئی کوٹہ ہوتا تو ماہرہ خان، سال کی سب سے کامیاب فلم ’جوانی پھر نہیں آنی 2‘ کی ماورا اور اب تک کی سب سے کامیاب نان ہالیڈے فلم ’طیفا‘ کی مایا علی غائب کیوں ہوتی؟
ان کا کہنا تھا کہ ایوارڈز کی تقریب میں پریزنٹرز اور پرفارمنس کرنے والوں کا بھی کوئی دباؤ نہیں ہوتا اور نہ ہی آزاد جیوری کو کوئی ’پُش‘ کرسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کیا کوئی حسن زیدی، عثمان پیرزادہ، عاصم رضا، زیبا بختیار، نعیم حبیب سمیت بھی جیوری کے کسی بھی فرد کو کسی بھی قسم کی سفارش کرنے کا سوچ بھی سکتا ہے؟ بولنا تو بہت دور کی بات ہے۔
یہ ایوارڈز 2002 میں شروع ہوئے تب فلموں اور ٹی وی کی صرف تین کیٹگریاں تھیں، بہترین فلم کی کیٹگریز میں تین کامیاب فلمیں گھر ’کب آؤ گے‘، ’تیرے پیار میں‘ اور ’کھوئے ہو تم کہاں‘ تھیں، جن کا میوزک بھی سپر ہٹ تھا۔
اُس سال کے بعد آہستہ آہستہ فلمیں بننا کم ہوگئیں لیکن ایوارڈز والوں نے فلموں کو ایوارڈز دینے کا سلسلہ جاری رکھا، غالباً ایک سال فلمز کو ایوارڈز نہیں دیے گئے لیکن کسی بھی سال اگر ایک فلم بھی تھوڑی بہت بہتر بنی ہوتی تھی تو اُسی کو ایوارڈ دے کر پوری انڈسٹری کو شاباش دی جاتی تھی۔
2009 میں ہونے والے ایوارڈز میں پہلی بار 4 فلموں نے بہترین فلم کیلئے مقابلہ کیا۔
انڈسٹری کا حال پھر خراب ہوا لیکن 2016 وہ تاریخی سال آیا جب پہلی بار5 فلموں کو بہترین فلم کی کیٹگری میں جگہ ملی۔ اُسی سال پہلی بار بہترین معاون اداکار اور بہترین معاون اداکارہ کو نامزدگی دی گئی اور فلم کی مجموعی کیٹگریز 8 کردیں گئیں۔
2018 تو پاکستانی فلم انڈسٹری کیلئے خوشیاں ہی خوشیاں لایا، اس سال ریلیز ہونے والی فلموں نے مجموعی طور پر دنیا بھر میں 300 کروڑ کے قریب بزنس کیا، ٹاپ 4 فلمیں ’جوانی 2‘، ’پرواز‘، ’طیفا‘ اور ’ڈونکی کنگ‘ کا بزنس مجموعی طور پر 200 کروڑ سے بھی زیادہ رہا۔
اِس کامیابی کے بعد فلم میں کام کرنے والوں اور فلمیں دیکھنے جانے والوں کو امید تھی کہ ایوارڈز کی کیٹگریز بڑھائی جائیں گی لیکن ہوا اس کے برعکس، اس سال ایوارڈز کی کیٹگریز کم کرکے بہترین معاون اداکار، بہترین معاون اداکارہ کے ایوارڈز بالکل ختم کردیے گئے۔
جیوری نے سب کے سامنے، طریقہ کار بھی سینہ ٹھونک کر بتایا اور ایوارڈز والے خود سائیڈ پر یعنی سب کچھ صاف شفاف لیکن ابھی بھی مسائل ہیں۔ یہ تو اب سب جانتے ہیں کہ بہترین اداکار یا اداکارہ کیلئے 5 نامزدگیوں کو نہیں بلکہ ہر کردار کو جانچا گیا لیکن یہ نہیں جانتے کہ انہی 5 نامزدگیوں میں سے ہی ’بہترین اداکار (ویورز چوائس) اور اِسی میں سے بہترین اداکار (کریٹکس) منتخب ہوگا۔
یعنی ’جوانی‘ کے احمد علی بٹ یا ’کیک‘ کے محمد احمد دونوں ایوارڈز جیت بھی سکتے ہیں، اسی طرح بہترین اداکارہ کے دونوں ایوارڈز بھی کوئی ایک اداکارہ گھر لے جاسکتی ہے۔
دونوں ایوارڈز کا ایک ’ونر‘ مسئلہ نہیں لیکن ہمارے خیال میں جیوری نے نامزدگیاں ہی ( کریٹکس ) کے حوالے سے کیں لیکن اب لوگ بھی انہی میں اپنی پاپولر چوائس ڈھونڈیں گے۔
اس طرح تو ایوارڈز کی تقریب میں وقت بھی اُتنا ہی لگے گا، اس سے تو بہتر تھا کہ دونوں کی کیٹگریاں الگ رکھی جاتی، یا کریٹکس کی جگہ بہترین معاون اداکار اور اداکارہ کی نامزدگیاں برقرار رکھی جاتی اور نامزدگیاں5 سے بڑھا کر6 کی جاسکتی تھیں۔
بہترین معاون اداکار اور اداکارہ کی نامزدگی ختم کرنے کی یہ وجہ بھی بتائی جارہی ہے کہ کچھ اداکار اپنے آپ کو اس کیٹگری میں دیکھ کر ’خفا‘ ہوجاتے تھے، لوگوں کا کیا ہے وہ تو اب بھی ناراض ہورہے ہیں۔
پچھلے سال ایوارڈز میں مجموعی طور پر 3 نامزدگیاں حاصل کرنے والے محسن عباس حیدر آج ایک نامزدگی نہ ملنے پر بھی ناراض ہورہے ہیں، ان کو سوچنا چاہیے تھا نا کہ اگر یہ زیادتی ہے تو وہ کیا تھی ۔
اس بارے میں فرشتے اسلم کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں یہ اسٹینڈرڈ ہی اپنایا جاتا ہے، آسکرز سمیت زیادہ تر ایوارڈز میں 90 فیصد کیٹگریز میں صرف 5 نامزدگیاں ہی ہوتی ہیں۔
دلچسپ بات یہ کہ لکس بھی اِس کو فالو کرتا ہے لیکن ’وکی پیڈیا‘ پر دی گئی معلومات کے مطابق 16 ویں لکس ایوارڈز میں بہترین ہدایتکار کیلئے 6 کیٹگریز تھی۔ اس پر فرشتے اسلم کا کہنا تھا کہ ایسا صرف اس صورت میں ہی ہوسکتا ہے جب پانچویں نمبر پر موجود نامزدگی کو ’برابر‘ ووٹ پڑے ہوں۔
ابھی تک ایسے الزام تو سنے لیکن ثبوت کچھ نہیں ملا، جیوری کے لوگوں کو جب دوسروں کی نامزدگی اور مکمل نتیجے کا علم ہی نہیں ہوتا تو وہ بھی رزلٹ پر سوال کیسے اٹھاسکتے ہیں؟
ایوارڈز منیجر کے مطابق ہر سال ایسے ہی شور اٹھتا ہے اور پھر بیٹھ جاتا ہے وہ ہر سال بار بار طریقہ کار پوچھنے والوں کو بتاتی ہیں جو کئی جگہ چَھپ بھی چکا ہے۔
صرف فلموں کی بات کی جائے تو احمد علی بٹ نے (جن کو جیوری نے 2016 میں بہترین اداکار کی کیٹگری میں نامزد کیا تھا) نے خود ایوارڈز والوں کو درخواست کی تھی کہ انھیں معاون اداکار کی فہرست میں جگہ دی جائے۔
اُس سال معاون اداکار کی فہرست میں چھ نام تھے، چھٹے نام کی وجہ شاید یہی تھی۔ بہر حال یہ ایوارڈ اُس وقت ’رانگ نمبر‘ کے جاوید شیخ نے جیتا تھا۔
ہمارے خیال میں ایوارڈز والوں کو یہ بات نہیں ماننی چاہیے تھی کیونکہ اب احمد علی بٹ کو ایک بار پھر بہترین اداکار کی فہرست میں جگہ ملی اور وہ بھی اُسی فلم ’جوانی‘ کے سیکوئل ’جوانی پھر نہیں آنی 2‘ کیلئے۔ اب اگر احمد علی بٹ کی بات اس وقت مانی گئی تو آج کوئی بھی اعتراض کرسکتا ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ سب باتیں ہوگئی وہ چکن، مچھلی، چھوٹا گوشت اور بڑے گوشت کا کیا ہوا، اِس سال فلمی گانوں اور میوزک کے ساتھ بڑی زیادتی ہوگئی، پہلے تو بہترین پلے بیک سنگر میل اور فیمیل کی کیٹگری کو ایک ہی کردیا گیا۔
دوسرا اِس کی نامزدگیوں کا فیصلہ فلم جیوری نے نہیں کیا اور تیسرا جس 7 رکنی جیوری نے ان گانوں کو چنا، ان میں سے غالباً 4 تو اُن 11 فلموں کو دیکھنے سینما بھی نہیں گئے ہوں گے (یہ مفروضہ ہے اگر یہ تعداد3 بھی ہے تو ہم اپنے الفاظ واپس لیتے ہیں)۔
اِس جیوری نے اگر فلم سینما میں دیکھے بغیر گانوں کا انتخاب کیا ہے تو قصور ان کا بھی نہیں کیونکہ ان کو تو ذمہ داری اچانک سوپنی گئی یعنی ’آئٹم سانگ‘ نہیں تھا، تو نا صحیح لیکن ’ٹلے والی جوتی‘ تو سننے والوں کے سر پر پڑتی ہے۔
لوڈ ویڈنگ کا ’رنگیا‘ آخر اُسی فلم کے ’کوچ نہ کریں‘ کی جگہ کیسے لے سکتا ہے، ’ڈونکی راجہ‘ پاکستان کا سب سے مقبول گیت صحیح لیکن یہاں اس کی جگہ پر بہر حال سوال ہیں۔
ہر ایوارڈز کا سیزن جنوری سے مارچ تک ہوتا ہے لیکن اس بار حتمی فلمی نامزدگیاں ہی مارچ میں سامنے آئیں۔ غالباً یہ ایوارڈز اب جولائی میں ہوں گے۔ فرشتے اسلم کے مطابق پہلے یہ ایوارڈز مارچ میں ہونے تھے لیکن پی ایس ایل کی وجہ سے انھیں یہ ’ری شیڈول‘ کرنا پڑا۔
اسٹائل ایوارڈز کے فلم سیکشن کی 7 میں سے صرف 2 کیٹگریز کیلئے ووٹنگ ہوگی، اس کیلئے آپ کو ان ایوارڈز کی آفیشل ویب سائٹ پر جانا ہوگا اور ’Nominations‘ کے نیچے ’Vote Now‘ کو ’کِلک‘ کرنا ہوگا۔
پھر ’فلم‘ کے ڈبے کو دبانا ہوگا، اب آپ کے سامنے ’بیسٹ فلم ایکٹر‘ اور ’بیسٹ فلم ایکٹرس‘ کا آپشن آئے گا۔
دونوں کیٹگیریز کو دبانے کے بعد تھوڑا انتظار کریں کیونکہ بہت سارے ڈیسک ٹاپ اور لیپ ٹاپ اسکرین پر پہلی جھلک میں صرف تین تصویریں آئے گی جو آہستہ آہستہ کھسک کر غائب ہونگی اور پھر باقی نامزدگیاں سامنے آئیں گی۔ آپ ’لیفٹ یا رائٹ ایرو‘ دبا کر بھی جلدی سے ساری نامزدگیاں دیکھ کر فیصلہ کرسکتے ہیں۔
جب آپ اس تصویر پر بنے ’Vote Now‘ کو کلک کرلیں گے تو آپ کا ’موبائل نمبر‘ مانگا جائے گا۔
ایک موبائل نمبر پر ایک ہی ووٹ کاسٹ کیا جاسکتا ہے لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ آپ کے موبائل نمبر سے کوئی بھی (جس کے پاس وہ نمبر موجود ہے) پہلے ہی ووٹ کاسٹ کرسکتا ہے۔
تجاویز کیسی؟ جیوری اور ایوارڈز انتظامیہ عملاً کام کر رہی ہے، ہم تو صرف باتیں بنارہے ہیں۔ امید ہے وہ خود ان ایوارڈز کے بعد بیٹھ کر اگلے سال ’تبدیلیاں‘ لائیں گے۔
ہمارا بس یہ خیال ہے کہ اگر لکس انتظامیہ ’کیٹگریز‘ فائنل کرنے سے پہلے جیوری کو اعتماد میں لے توسب ایک پیج پر آجائیں گے، جیسے اس سال کی جیوری ہے اگر اس طرح کے 18 لوگوں کو پہلے ہی بتادیا جائے تو وہ فلم کے میوزک جیسے اہم ڈیپارٹمنٹ کی نامزدگیاں بھی کریں گے۔
ان 18 میں سے کوئی 10 تو دستیاب ہونگے حتمی بیٹھک کیلئے، اس طرح کی جیوری کا یقیناً ایک ایک فرد قابل اعتبار ہے۔
بیسٹ کریٹکس کیلئے نامزدگیوں کو بہرحال پاپولر چوائس سے الگ ہونا چاہیے، پورے سال میں ایک یا دو ہی پرفارمنس ہوتی ہیں جو دونوں کیٹیگریز میں آسکتی ہیں۔
بہترین معاون اداکار اور معاون اداکارہ کی کیٹیگریز بھی ہمارے خیال میں لازمی ہونی چاہیے اب کوئی ناراض ہو یا خوش۔
جب ایوارڈز کیلئے نامزدگی جیوری کو ہی کرنی ہے تو ان کو بٹھا کر فائنل ووٹنگ کرائی جاسکتی ہے کیونکہ یہاں اس سال اگر محمد احمد اور عدنان ملک کیلئے جو پیمانہ بنا اس میں تو بیو ظفر اور فائزہ حسن کا نام بھی آنا چاہیے تھا۔
اور سب سے اہم بات ہماری طرح باتیں بنانا بہت آسان لیکن کام کرنا بہت مشکل ہوتا ہے تو یہ بات بھی واضح ہے کہ ہماری ساری تجاویز مکمل طور پر عملاً غلط ہوسکتی ہیں کیونکہ کچھ تو لوگ کہیں گے لوگوں کا کام ہے کہنا۔