07 جنوری ، 2013
اسلام آباد … آئی جی سندھ نے سپریم کورٹ میں شاہ زیب قتل کیس میں پیش رفت پر مبنی رپورٹ جمع کرادی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سکندر جتوئی نے ٹی وی پر بیٹھ کر کہا کہ اس کا بیٹا آسٹریلیا چلا گیا، پولیس اس کے باوجود چوکس نہ ہوئی، پولیس نے جان بوجھ کر شاہ رخ جتوئی کو بھاگنے کا موقع دیا، شاہ زیب کے قتل پر 15 پر فون کیا جاتا رہا، پولیس 45 منٹ بعد پہنچی، انہوں نے مزید کہا کہ آئی جی اور تمام پولیس افسران لکھ کر دیں کہ وہ ناکام ہوگئے ہیں، آئی جی کہیں کہ ان کا ضمیر ملامت کررہا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ شاہ رخ جتوئی کے والد سکندر جتوئی کا بیان ریکارڈ کیا جائے، وہ جہاں بیٹھا ہوگا وہاں آپ جا ہی نہیں سکتے، کراچی کے حالات کے تناظر میں شاہ زیب قتل ایک ٹیسٹ کیس بن گیا ہے، شاہ زیب کی بہن کو بھی چھیڑا گیا، الٹا اسی سے معافی بھی منگوائی گئی، کیا ہماری معاشرتی اقدار اس قدر گر گئی ہیں۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں شاہ رخ قتل کیس کے از خود نوٹس کی سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران آئی جی سندھ فیاض لغاری نے کیس میں پیش رفت پر مبنی رپورٹ جمع کرادی، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شاہ زیب کیس کے بارے میں پولیس رپورٹ پرانی ہے یا نئی۔ ایڈوکیٹ جنرل سندھ فتخ ملک نے عدالت کو بتایا کہ یہ نئی اطلاعات پر مشتمل 6 جنوری کی رپورٹ ہے، ہم کامیابی کے قریب ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو یہ بھی نہیں پتا کہ شاہ رخ جتوئی پاکستان سے کب اور کہاں گیا۔ جسٹس گلزار کا کہنا ہے کہ شاہ رخ جتوئی کے دبئی پہنچنے کی اطلاع ہے، اس نے اپنے نام سے سفر نہیں کیا۔ ڈی آئی جی ساوٴتھ شاہد حیات نے عدالت کو بتایا کہ شاہ رخ جتوئی امارات کی پرواز سے جعلی نام کے ذریعے گیا، قونصل جنرل نے اطلاع دی ہے کہ شاہ رخ دبئی اترا ہے اور اطلاع کے مطابق شاہ رخ کے دبئی سے باہر جانے کا کوئی اندراج نہیں۔ جسٹس عظمت پوچھا کہ شاہ رخ جتوئی کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست کب دی گئی جس پر ڈی آئی جی ساوٴتھ نے جواب دیا کہ درخواست 27 دسمبر کو دی، نام 2 جنوری کو ای سی ایل پر آیا، مقدمے کے دوسرے ملزم سراج تالپور کا نام بھی ای سی ایل میں شامل کرلیا گیا۔ جسٹس عظمت کہا کہ درخواست تب بھجوائی جب شاہ رخ جتوئی کے کراچی سے نکل جانے کی تصدیق ہوگئی، جس پر جسٹس افتخار چوہدری نے کہا کہ پولیس نے جان بوجھ کر شاہ رخ جتوئی کو بھاگنے کا موقع دیا، جسٹس گلزار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پاسپورٹ منسوخی کی درخواست 4 جنوری کو دی گئی، جب کوئی اہمیت نہ تھی۔ جسٹس شیخ عظمت نے مزید کہا کہ درخواست صرف ایف آئی اے کراچی کو دی گئی، باقی ایئر پورٹس کو بے خبر رکھا گیا۔ چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ سکندر جتوئی نے ٹی وی پر بیٹھ کر کہا کہ اس کا بیٹا آسٹریلیا چلا گیا،پولیس اس کے باوجود چوکس نہ ہوئی، جسٹس گلزار نے کہا کہ پولیس صرف پرانے طرز کی تفتیش کر رہی ہے۔ ڈی آئی جی ساوٴتھ نے عدالت کو بتایا کہ 25 سے28 دسمبر تک ملک سے جانے والوں کا ریکارڈچیک کیا، شاہ رخ کا نام نہیں ملا، 3 ملزمان پکڑ لئے، دیگر کو پکڑنے کی مہلت دی جائے، ڈی آئی جی کرائم بشیر میمن نے کہا کہ ملزمان کی جائیداد کو تالے لگے ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار چوہدری نے کہا کہ شاہ زیب کے قتل پر 15 پر فون کیا جاتا رہا، پولیس 45 منٹ بعد پہنچی، آئی جی اور تمام پولیس افسران لکھ کر دیں کہ وہ ناکام ہو گئے ہیں، آئی جی کہیں کہ ان کا ضمیر ملامت کر رہا ہے اور وہ ناکامی تسلیم کریں، کراچی میں عائشہ منزل سے بھی رات 5 لاشیں ملیں، یہ معمول بن گیا ہے۔ تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ شاہ زیب کے والد نے حادثے کی جگہ پہنچ کر بتایا کہ ان کا سمجھوتا ہوگیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ شاہ رخ جتوئی کے والد سکندر جتوئی کا بیان ریکارڈ کیا جائے، وہ جہاں بیٹھا ہوگا وہاں آپ جا ہی نہیں سکتے، کراچی کے حالات کے تناظر میں شاہ زیب قتل ایک ٹیسٹ کیس بن گیا ہے، شاہ زیب کی بہن کو بھی چھیڑا گیا، الٹا اسی سے معافی بھی منگوائی گئی، کیا ہماری معاشرتی اقدار اس قدر گر گئی ہیں۔